غامدی صاحب کی قرآن فہمی- قسط اول

Published On September 27, 2025
کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ دوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ دوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صحابہ کرام کا عمل اور رویہ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم اور احادیث رسول میں کوئی فرق نہیں کیا اور دونوں کو نہ صرف یکساں واجب الاطاعت جانا بلکہ احادیث کو قرآن ہی کا حصہ گردانا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ دوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ اول

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ماہنامہ الشریعہ میں مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ کے کتابچے ’’غامدی صاحب کا تصور حدیث وسنت‘‘ کا اور ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت بنام ’’الشریعہ کا طرز فکر اور پالیسی: اعتراضات واشکالات کا جائزہ‘‘ کا اشتہار دیکھا تو راقم نے نہایت ذوق وشوق کے...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط اول

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط اول

ڈاکٹر زاہد مغل تعارف جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب "برہان" میں تصوف کے موضوع کو تختہ مشق بناتے ہوئے اکابر صوفیاء کرام بشمول امام غزالی پر ضلالت اور کفریہ و شرکیہ  نظریات فروغ دینے کے فتوے جاری فرمائے ہیں۔ نیز ان کے مطابق حضرات صوفیاء کرام نے خدا کے دین کے...

جمعے کی امامت اور غامدی صاحب کا نقطۂ نظر

جمعے کی امامت اور غامدی صاحب کا نقطۂ نظر

الیاس نعمانی ندوی ماہنامہ اشراق (بابت ماہ اپریل ۲۰۰۸ء) کے شذرات کے کالم میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی گفتگو پر مبنی ایک تحریر نظر نواز ہوئی ہے۔ عنوان ہے: ’’جمعے کی امامت‘‘۔ اسی کی بابت کچھ عرض کرنے کا اس وقت ارادہ ہے۔ غامدی صاحب کا حاصل مدعا خود انہی کے الفاظ میں...

غامدی صاحب کے تصور ’فطرت‘ کا تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کے تصور ’فطرت‘ کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر المورد اسلامک انسٹی ٹیوٹ کے سرپرست ‘ماہنامہ ’اشراق کے مدیر اور’ آج ‘ ٹی وی کے نامور اسکالر جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے دو اہم اصولوں ’سنت ابراہیمی ‘ اور ’نبیوں کے صحائف ‘ کا تنقیدی اورتجزیاتی مطالعہ ماہنامہ ’الشریعہ ‘ کے صفحات میں پیش کیا جا چکا...

غامدی صاحب کا تصور تاریخ: ایک تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کا تصور تاریخ: ایک تنقیدی جائزہ

محمد حسنین اشرف غامدی صاحب کی میٹافزکس میں جہاں بہت سے تصورات تنقیح طلب ہیں ان میں سے ایک تصورِ تاریخ بھی ہے۔ یہ ایسا تصور ہے جو ان کے الہیاتی اور فقہی، دونوں فریم ورکس کا حصہ ہے۔ غامدی صاحب اس پر بہت سی عمارتیں بلند کرتے ہیں لیکن یہ ابھی تک نہایت بنیادی شکل میں موجود...

مفتی ابو لبابہ

غامدی صاحب اور ان کا مکتبِ فکر آج کل اپنے اجتہادِ جدید کی روشنی میں وطنِ عزیز کو چکاچوند کرتی روشنیوں اور دمادم کرتی روشن خیالیوں کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ اس غرض کے لیے انہوں نے اُمت کے تمام پہلے اور پچھلے اہلِ علم کی تحقیقات کی نفی کرتے ہوئے قرآنِ کریم سے براہِ راست استنباط اور نام نہاد اجتہاد کی راہ ڈال لی ہے۔ اب یہ تو دنیا کو معلوم ہو چکا ہے کہ علومِ عربیت سے ان کی واقفیت اور جدید مغربی علوم سے ان کی شناسائی کس قدر ہے؟ آئیے! آج ذرا قرآن فہمی کے حوالے سے ان کے کام کا جائزہ لیتے ہیں جو ان کی تمام کاوشوں کی بنیاد اور سہارا ہے۔

قرآن فہمی کے جھوٹے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے ان کا پہلا اور آخری سہارا یہ ہے کہ وہ عربی لغت اور ادبِ عربی کو اتنا اچھا سمجھتے ہیں کہ اس کے ذریعے قرآن کے معنی و مفاہیم کو خود متعین کر سکتے ہیں، چاہے اس سے اجماع کا انکار، دینِ اسلام کے مسلمہ احکام کی تردید کرنی پڑے یا پھر سرے سے خود قرآن ہی سے ہاتھ دھو بیٹھنا پڑے۔ آنجناب کو عربیِ معلیٰ (با محاورہ عربی) جاننے کا بڑا زعم ہے اور ان کا یہ فرمان مستند سمجھا جاتا ہے کہ خالص عربیت کو سامنے رکھ کر قرآن کا معنی متعین کرنے میں ان کا مدِّ مقابل کوئی نہیں ہے۔

یہ دعویٰ اتنا ہی بے اصل ہے جتنی آنجناب کی عربیت سے واقفیت کا زعم۔ اگر ہم اپنے قارئین کو یہ حقیقت سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں کہ ان کی عربیت سے واقفیت اتنی ہی ہے جتنی ملعون رشدی کو انگریزی سے، تو یہ سمجھنے میں مشکل نہ رہے گی کہ ملعون کو “سر” کا خطاب اور نامدی صاحب کو اس “اسکالر” کا اعزاز کس مقصد سے ملا ہے؟ ملعون رشدی اور غامدی صاحب میں قدرِ مشترک صرف یہی نہیں کہ جہالتِ عظمٰی کے علی الرغم وہ مغرب کی طرف سے پشت پناہی اور کفالت و حمایت کے حق دار سمجھے جاتے ہیں بلکہ توہینِ رسالت کے پہلو کے حامل کچھ جملے جناب غامدی صاحب کی طرف بھی منسوب کیے جاتے ہیں۔

آئیے! تعصب اور جانبداری کو ایک طرف رکھتے ہوئے ان “مجتہدِ بن عصر” کے اس دعوے کا کھلے دل اور کھلی نظر سے جائزہ لیتے ہیں۔ اگر اس کی حقیقت آشکارا ہو جائے تو ان کے بقیہ اٹھائے ہوئے مباحث کی حقیقت سمجھنا کچھ مشکل نہ ہوگا۔ ہم پہلی مثال ذرا تفصیلی، دوسری مختصر اور بقیہ مثالیں بہت ہی مختصر دیں گے۔ کیونکہ یہ کوئی مقالہ تو ہے نہیں، بات سمجھنے اور سمجھانے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے۔ جتنی صاف ستھری، براہِ راست اور پیچیدگی سے پاک ہو اتنی ہی مفید رہے گی۔ اللہ تعالیٰ اسے میری قوم کے لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنائے۔

سورۃ الاعلیٰ میں ہے:
“وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعَى فَجَعَلَهُ غُثَاءً أَحْوَى”

اپنی تفسیر البیان (اس کو بعض صاحبِ ذوق “البیان التغیر” اس لیے کہتے ہیں کہ یہ آخری پارے سے الٹی طرف لکھی جا رہی ہے۔ پہلی جلد میں سورۃ الملک سے سورۃ الناس تک کی تفسیر ہے، بقیہ جلدیں نامکمل ہیں) میں غامدی صاحب نے اس کا ترجمہ کیا ہے:

“اور جس نے سبزہ نکالا، پھر اسے گھنا سرسبز و شاداب بنا دیا۔” (البیان، ص 165)

اس کے علاوہ غامدی صاحب کے فکری و نظریاتی امام، مولانا امین احسن اصلاحی بھی اس مقام کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:

“اور جس نے نباتات اُگائیں، پھر ان کو گھنا سرسبز و شاداب بنایا۔” (تدبر قرآن، ج 9، ص 311)

یہ دونوں ترجمے بالکل غلط ہیں اور یہ بات ہم اتنی قطعیت کے ساتھ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اس ترجمے اور مفہوم پر درج ذیل اعتراضات ہوتے ہیں:

  1. یہ ترجمہ و مفہوم عربیت کے خلاف ہے۔ عربی زبان کی کسی لغت میں “غُثاء” کا لفظ گھنے سبزے کے معنوں میں نہیں آتا۔

  2. یہ ترجمہ خود قرآن مجید کے نظائر کے خلاف ہے۔

  3. یہ ترجمہ احادیث کے شواہد کے بھی خلاف ہے۔

  4. یہ ترجمہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے اقوال کے بھی خلاف ہے۔

  5. یہ ترجمہ اجماعِ امت کے بھی خلاف ہے کیونکہ کسی مفسر نے آج تک “غُثاء” کے معنی گھنے سبزے کے نہیں کیے۔

  6. یہ ترجمہ اردو کے تمام مترجمین کے ترجموں کے خلاف ہے۔ آج تک کسی ایک مفسر نے ان آیات کا یہ ترجمہ نہیں کیا۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…