غامدی صاحب کی قرآن فہمی- قسط اول

Published On September 27, 2025
غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر زاہد مغل  اس مضمون میں ہم جاوید احمد غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا ایک مختصر مگر جامع تنقیدی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ غامدی صاحب کا نظریہ اخلاق درحقیقت اسلام کے بجائے مغربی ما بعد الطبیعیات پر مبنی ہے اور امت مسلمہ کو اعتزال قدیمہ کی راہوں پر ڈالنے کی مکمل...

غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہر دور اور ہر قوم میں اپنے انبیا و رسل بھیجے اور ان کی رہنمائی کے لیے وحی کا سلسلہ جاری فرمایا ۔اس وحی کے نزول کے دو طریقے ہیں  اول ۔  بعض اوقات یہ وحی لفظاً ہوتی ہے یعنی اس میں الفاظ بھی اللہ کے...

اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ

اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ

ابو عمار زاہد الراشدی جناب جاوید احمد غامدی کا ایک حالیہ مضمون ان دنوں دینی حلقوں میں زیر بحث ہے جس میں انہوں نے بنیادی طور پر یہ تصور پیش کیا ہے کہ اسلام کا خطاب فرد سے ہے سوسائٹی سے نہیں ہے، اور اسلام کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے اس وقت عالم اسلام میں...

اسلام میں پردے کے احکام اور غامدی صاحب

اسلام میں پردے کے احکام اور غامدی صاحب

ابو عمار زاہد الراشدی ساتویں صدی ہجری کے معروف مفسر قرآن امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاریؒ نے ’’تفسیر قرطبی‘‘ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنے علمی حلقے میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے آ کر مسئلہ پوچھا کہ اگر کوئی...

رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب

رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب

ابو عمار زاہد الراشدی ہم محترم جاوید احمد غامدی صاحب کا یہ ارشاد گزشتہ کالم میں پیش کر چکے ہیں کہ سنت ان کے نزدیک دین ابراہیمیؑ کی کسی ایسی روایت کے تسلسل کا نام ہے جسے جناب نبی اکرمؐ نے بھی مناسب ترمیم و اضافہ کے ساتھ باقی رکھا ہو۔ ان کے اس ارشاد کی کسوٹی پر ہم رجم...

غامدی صاحب اور خبر واحد

غامدی صاحب اور خبر واحد

ابو عمار زاہد الراشدی علماء کے سیاسی کردار، کسی غیر سرکاری فورم کی طرف سے جہاد کے اعلان کی شرعی حیثیت، علماء کرام کے فتویٰ جاری کرنے کے آزادانہ استحقاق، اور زکوٰۃ کے علاوہ کسی اور ٹیکس کی شرعی ممانعت کے حوالہ سے محترم جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے بعض حالیہ ارشادات کے...

مفتی ابو لبابہ

غامدی صاحب اور ان کا مکتبِ فکر آج کل اپنے اجتہادِ جدید کی روشنی میں وطنِ عزیز کو چکاچوند کرتی روشنیوں اور دمادم کرتی روشن خیالیوں کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ اس غرض کے لیے انہوں نے اُمت کے تمام پہلے اور پچھلے اہلِ علم کی تحقیقات کی نفی کرتے ہوئے قرآنِ کریم سے براہِ راست استنباط اور نام نہاد اجتہاد کی راہ ڈال لی ہے۔ اب یہ تو دنیا کو معلوم ہو چکا ہے کہ علومِ عربیت سے ان کی واقفیت اور جدید مغربی علوم سے ان کی شناسائی کس قدر ہے؟ آئیے! آج ذرا قرآن فہمی کے حوالے سے ان کے کام کا جائزہ لیتے ہیں جو ان کی تمام کاوشوں کی بنیاد اور سہارا ہے۔

قرآن فہمی کے جھوٹے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے ان کا پہلا اور آخری سہارا یہ ہے کہ وہ عربی لغت اور ادبِ عربی کو اتنا اچھا سمجھتے ہیں کہ اس کے ذریعے قرآن کے معنی و مفاہیم کو خود متعین کر سکتے ہیں، چاہے اس سے اجماع کا انکار، دینِ اسلام کے مسلمہ احکام کی تردید کرنی پڑے یا پھر سرے سے خود قرآن ہی سے ہاتھ دھو بیٹھنا پڑے۔ آنجناب کو عربیِ معلیٰ (با محاورہ عربی) جاننے کا بڑا زعم ہے اور ان کا یہ فرمان مستند سمجھا جاتا ہے کہ خالص عربیت کو سامنے رکھ کر قرآن کا معنی متعین کرنے میں ان کا مدِّ مقابل کوئی نہیں ہے۔

یہ دعویٰ اتنا ہی بے اصل ہے جتنی آنجناب کی عربیت سے واقفیت کا زعم۔ اگر ہم اپنے قارئین کو یہ حقیقت سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں کہ ان کی عربیت سے واقفیت اتنی ہی ہے جتنی ملعون رشدی کو انگریزی سے، تو یہ سمجھنے میں مشکل نہ رہے گی کہ ملعون کو “سر” کا خطاب اور نامدی صاحب کو اس “اسکالر” کا اعزاز کس مقصد سے ملا ہے؟ ملعون رشدی اور غامدی صاحب میں قدرِ مشترک صرف یہی نہیں کہ جہالتِ عظمٰی کے علی الرغم وہ مغرب کی طرف سے پشت پناہی اور کفالت و حمایت کے حق دار سمجھے جاتے ہیں بلکہ توہینِ رسالت کے پہلو کے حامل کچھ جملے جناب غامدی صاحب کی طرف بھی منسوب کیے جاتے ہیں۔

آئیے! تعصب اور جانبداری کو ایک طرف رکھتے ہوئے ان “مجتہدِ بن عصر” کے اس دعوے کا کھلے دل اور کھلی نظر سے جائزہ لیتے ہیں۔ اگر اس کی حقیقت آشکارا ہو جائے تو ان کے بقیہ اٹھائے ہوئے مباحث کی حقیقت سمجھنا کچھ مشکل نہ ہوگا۔ ہم پہلی مثال ذرا تفصیلی، دوسری مختصر اور بقیہ مثالیں بہت ہی مختصر دیں گے۔ کیونکہ یہ کوئی مقالہ تو ہے نہیں، بات سمجھنے اور سمجھانے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے۔ جتنی صاف ستھری، براہِ راست اور پیچیدگی سے پاک ہو اتنی ہی مفید رہے گی۔ اللہ تعالیٰ اسے میری قوم کے لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنائے۔

سورۃ الاعلیٰ میں ہے:
“وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعَى فَجَعَلَهُ غُثَاءً أَحْوَى”

اپنی تفسیر البیان (اس کو بعض صاحبِ ذوق “البیان التغیر” اس لیے کہتے ہیں کہ یہ آخری پارے سے الٹی طرف لکھی جا رہی ہے۔ پہلی جلد میں سورۃ الملک سے سورۃ الناس تک کی تفسیر ہے، بقیہ جلدیں نامکمل ہیں) میں غامدی صاحب نے اس کا ترجمہ کیا ہے:

“اور جس نے سبزہ نکالا، پھر اسے گھنا سرسبز و شاداب بنا دیا۔” (البیان، ص 165)

اس کے علاوہ غامدی صاحب کے فکری و نظریاتی امام، مولانا امین احسن اصلاحی بھی اس مقام کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:

“اور جس نے نباتات اُگائیں، پھر ان کو گھنا سرسبز و شاداب بنایا۔” (تدبر قرآن، ج 9، ص 311)

یہ دونوں ترجمے بالکل غلط ہیں اور یہ بات ہم اتنی قطعیت کے ساتھ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اس ترجمے اور مفہوم پر درج ذیل اعتراضات ہوتے ہیں:

  1. یہ ترجمہ و مفہوم عربیت کے خلاف ہے۔ عربی زبان کی کسی لغت میں “غُثاء” کا لفظ گھنے سبزے کے معنوں میں نہیں آتا۔

  2. یہ ترجمہ خود قرآن مجید کے نظائر کے خلاف ہے۔

  3. یہ ترجمہ احادیث کے شواہد کے بھی خلاف ہے۔

  4. یہ ترجمہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے اقوال کے بھی خلاف ہے۔

  5. یہ ترجمہ اجماعِ امت کے بھی خلاف ہے کیونکہ کسی مفسر نے آج تک “غُثاء” کے معنی گھنے سبزے کے نہیں کیے۔

  6. یہ ترجمہ اردو کے تمام مترجمین کے ترجموں کے خلاف ہے۔ آج تک کسی ایک مفسر نے ان آیات کا یہ ترجمہ نہیں کیا۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…