مولانا واصل واسطی ہم نے پہلی پوسٹ میں لکھاہے کہ جناب غامدی کلی طور پرمنکرِحدیث ہیں ، کہ وہ حدیث کو سرے سے ماخذِدین اور مصدرِشریعت نہیں مانتے ، انہوں نے اپنی فکرکی ترویج کے لیے جن اصطلاحات کو وضع کیاہے ان میں سے ایک اصطلاح ،، سنت ،، کی بھی ہے ، عام علماء کرام ،، حدیث...
غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 3
فراہی مکتب فکر کا قطعی الدلالت: جناب ساجد حمید صاحب کی تحریر سے مثال
ڈاکٹر زاہد مغل محترم غامدی صاحب کے شاگرد محترم ساجد حمید صاحب نے کسی قدر طنز سے کام لیتے ہوئے اصولیین کے اس تصور پر تنقید کی ہے کہ الفاظ قرآن کی دلالت ظنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بگاڑ کی اصل وجہ امام شافعی ہی سے شروع ہوجاتی ہے جس میں اصولیین، فلاسفہ و صوفیا نے بقدر...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 1)
مولانا واصل واسطی ہم نے یہ بات اپنی مختلف پوسٹوں میں صراحت سے بیان کی ہے ، کہ جناب جاوید غامدی، غلام احمدپرویز کی طرح بالکل منکرِحدیث ہیں ۔البتہ ان کا یہ فلسفہ پیچ درپیچ ہے ، وہ اس لیے کہ انھوں نے پرویز وغیرہ کا انجام دیکھ لیا ہے ، اب اس برے انجام سے وہ بچنا چاھتے...
قطعی و ظنی الدلالۃ: امام شافعی پر جناب ساجد حمید صاحب کے نقد پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل جناب ساجد حمید صاحب نے اپنی تحریر “قرآن کیوں قطعی الدلالۃ نہیں؟”میں فرمایا ہے کہ امت میں یہ نظریہ امام شافعی اور ان سے متاثر دیگر اصولیین کی آرا کی وجہ سے راہ پا گیا ہے کہ الفاظ قرآن کی دلالت قطعی نہیں۔ آپ نے امام شافعی کی کتاب الرسالۃ سے یہ تاثر دینے...
امام رازی اور قانون کلی کی تنقید پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل اہل علم متکلمین و اصولیین کے ہاں “قانون کلی ” کی بحث سے واقف ہیں۔ اس بحث کو لے کر شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے امام غزالی رحمہ اللہ کو ضمناً جبکہ امام رازی رحمہ اللہ کو بالخصوص شد و مد سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ امام رازی پر اعتراض یہ ہے کہ ان کے...
تصورِ نظمِ کلام کے مضمرات ( فکرِ غامدی پر نقد)
خضر یسین ہر بامعنی لفظ، ایک اسم ہوتا ہے۔ جس کا مسمی ذہن میں ہو تو معنی یا موضوع اور خارج میں ہو تو مدلول یا معروض کہلاتا ہے۔ لفظ کے بغیر ذہن میں تصور تشکیل نہیں پا سکتا ہے اور نہ تفہیم و تفکر کا عمل ممکن ہو سکتا ہے۔ الفاظ کا مجموعہ کلام نہیں ہوتا، بامعنی الفاظ کی...
مولانا عبد الحق بشیر
تیسرا اختلاف کیا حکم جہاد نبی کریم ﷺ کے ساتھ خاص ہے؟
تیسرا اختلاف غامدی صاحب کے ساتھ ہمارا یہ ہے کہ: غامدی صاحب کا نظریہ، یہ ہے کہ قرآن پاک نے جس جہاد کا حکم دیا ہے (یعنی غلبہ دین کے لیے جہاد ) وہ جہاد حضور ﷺ کی وفات حسرت آیات کے ساتھ ختم ہو گیا ہے۔ حضور ﷺ کے بعد جہاد باقی نہیں ہے۔ حضور ﷺ اور ان کے ساتھیوں یعنی صحابہ کے بعد جو جہاد لڑا گیا وہ قرآنی اور اسلامی جہاد نہیں ہے، خواہ وہ تابعین نے کیا، خواہ وہ جہاد تبع تابعین نے کیا، خواہ وہ جہاد اس کے بعد اسلامی مجاہدین نے کیا، وہ قرآنی اور اسلامی جہاد نہیں ہے۔ کیوں؟ اس کی علت غامدی صاحب یہ بیان کرتے ہیں کہ: اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں حضور ﷺ کے ساتھ غلبہ دین کا وعدہ کیا۔ “هو الذي ارسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله (الصف:]
غلبہ دین صرف اللہ کا وعدہ ہے یا اُمت کی ذمہ داری بھی؟
آپ حضرات چونکہ علمائے کرام ہیں، اس لیے ایک بات میں سمجھانی چاہوں گا کہ غلبہ دین (صرف) اللہ کا وعدہ ہے یا غلبہ دین اُمت کی ذمہ داری بھی ہے؟ بنیادی اختلاف ہمارا یہ ہے کہ غامدی صاحب نے اس کو وعدے تک محدود کر دیا کہ یہ ایک وعدہ تھا جو حضور ﷺ کے دور میں پورا ہو گیا۔ چوں کہ غلبہ دین کی اب ضرورت نہیں لہذا ( غلبہ دین کے لیے) جہاد بھی باقی نہیں۔ اُن کا دعوی یہ ہے کہ: جہاد حضور ﷺ کے دور کے ساتھ خاص تھا۔ جہاد کا حضور ﷺ کے بعد اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ وہ ایک جملہ لکھتے ہیں کہ: اقامت دین، دین کو دنیا پر قائم کرنا یہ اُمت کی ذمہ داری نہیں۔ جہاد کس مقصد کے لیے ہے؟ اقامت دین کے لیے۔ اور جب اقامت دین کی ذمہ داری سے ہی اُمت کو چھٹکارا مل گیا تو جہاد تو خود بخود ختم ہو گیا۔ جہاد کی ضرورت ختم ہو گئی۔
کیا جہاد کے لیے ہجرت شرط ہے؟
اور پھر ایک چیز اور غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ جہاد کے لیے ہجرت شرط ہے اور ہجرت کا حکم اللہ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ لہذا جہاد کی ضرورت ختم ہو گئی ، جہاد کی حیثیت ختم ہو گئی۔
ایک غامدی دھو کہ:۔
یہاں وہ ایک دھوکا دیتے ہیں اور بہت بڑا دھوکا دیتے ہیں۔ جب اُن سے سوال کیا جاتا ہے کہ: آپ جہاد کے منکر ہیں؟ تو وہ کہتے ہیں نہیں ! لا حول ولا قوة الا باللہ، میں جہاد کا منکر نہیں ہوں۔ جہاد دو قسم کا ہے: ایک ہے جہادا قامت دین کا اور ایک ہے جہاد ظلم کے خاتمے کا۔ اقامت دین کا جہاد ختم ہے ظلم کے خلاف جہاد باقی ہے۔
مرزاغلام احمد قادیانی کا دعوی بھی یہی ہے:۔
اور آپ میں سے پڑھے لکھے حضرات جنہوں نے قادیانیت کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ جہاد کے بارے میں ) مرزا قادیانی کا دعوی کیا ہے ؟ ( مرزا کہتا ہے:)
چھوڑ دو اے دوستو! جہاد کا خیال
دین کے لیے حرام ہے یہ جنگ اور قتال
مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوی بھی یہی تھا کہ اقامت دین کے لیے جہاد منسوخ ہو چکا ہے۔ مرزا قادیانی اور غامدی صاحب میں فرق صرف اتنا ہے کہ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ: یہ حضور ﷺ کی وفات حسرت آیات کے ساتھ ہی ختم ہو گیا تھا اور مرزا قادیانی کہتا ہے کہ یہ میری آمد کے ساتھ ختم ہوا ہے، میری نبوت کے ساتھ ختم ہوا ہے۔ موقف دونوں کا یہی ہے کہ دین کے لیے جہاد کرنا اب جائز نہیں ہے اور دین کے لیے جہاد کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔
جاری
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 72)
مولانا واصل واسطی وہ سورتِ توبہ کی آیات (5۔ 11) کونقل کرنے کےبعد لکحتے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 71)
مولانا واصل واسطی اس تحریر میں ہم دو شبہات کا ان شاءاللہ تفصیلی ذکرکریں...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 70)
مولانا واصل واسطی سنن کی اس فہرست میں ادھر جناب غامدی نے آخری چیز کا ذکر...