سود اور غامدی صاحب

Published On February 10, 2025
غامدی صاحب کا ایک اور بے بنیاد دعویٰ

غامدی صاحب کا ایک اور بے بنیاد دعویٰ

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اپنی ملامت کا رخ مسلسل مسلمانوں کی طرف کرنے پر جب غامدی صاحب سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ ظالموں کے خلاف بات کیوں نہیں کرتے، تو فرماتے ہیں کہ میری مذمت سے کیا ہوتا ہے؟ اور پھر اپنے اس یک رخے پن کےلیے جواز تراشتے ہوئے انبیاے بنی اسرائیل کی مثال دیتے ہیں...

فکرِ فراہی کا سقم

فکرِ فراہی کا سقم

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عربی دانی کا انکار نہیں اور نہ روایتی علوم کی متداول تنقید میں ان جواب تھا۔ لیکن وہ تمام فکری تسامحات ان میں پوری قوت کے ساتھ موجود تھے جو روایتی مذہبی علوم اور ان کے ماہرین میں پائے جاتے ہیں۔ عربی زبان و بیان کے تناظر میں قرآن...

استفتاء اور فتوی سے اتنی وحشت کیوں؟

استفتاء اور فتوی سے اتنی وحشت کیوں؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   وہی ہوا جس کی توقع تھی! کل رات کچھ سوالات اہلِ علم کے سامنے رکھے، اور آج صبح بعض مخصوص حلقوں سے اس طرح کی چیخ و پکار شروع ہوگئی ہے: آپ غزہ کے متعلق دینی رہنمائی حاصل کرنے کےلیے سوالات کیوں پوچھ رہے ہیں؟ اسی طرح کے سوالات پر فتوی دیا گیا،...

نائن الیون اور ماڈریٹ اسلام

نائن الیون اور ماڈریٹ اسلام

احمد الیاس نائین الیون کے بعد امریکہ نے کئی مسلمان ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ مل کر 'ماڈریٹ اسلام' کے پروجیکٹس شروع کیے۔ برنارڈ لوئیس، جان ایسپسیٹو جیسے مستشرقین اور 'اسلام ایکسپرٹس' کی رہنمائی بھی اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کو حاصل تھی۔ پاکستان میں بھی مشرف رجیم کی معاونت...

اہل غزہ کے خلاف بے بنیاد فتوی

اہل غزہ کے خلاف بے بنیاد فتوی

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اس”فتویٰ“ میں سورۃ الانفال کی آیت 72 سے کیا گیا استدلال بالکل ہی غلط ہے۔ پہلے یہ آیت پوری پڑھ لیجیے (اس آیت کا اور نیچے دی گئی تمام آیات کا ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی کا ہے):۔إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَٰهَدُواْ بِأَمۡوَٰلِهِمۡ...

طاقت کا کھیل ہے : ایسے ہی ہوتا ہے

طاقت کا کھیل ہے : ایسے ہی ہوتا ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد یہ غامدی صاحب اور ان کے متاثرین کے مرغوب جملے ہیں اور یہ بالکل ہی غلط ہیں، ہر لحاظ سے غلط ہیں اور یکسر غلط ہیں۔یہ بات مان لی جائے، تو نہ شریعت اور قانون کے تمام احکام معطل ہوجاتے ہیں اور ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ انسانوں کی صدیوں کی کوششیں...

حسان بن علی

غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش کرتا ہے ليكن حدیث میں وارد الفاظ “مُوكِله” کا یہ ترجمہ اور مفہوم قطعا درست نہیں کیونکہ جیسے “آكِل الربا” کا ترجمہ سود کھانے والا کیا جاتا ہے اور درحقیقت اس سے مراد سود لینے والا ہوتا ہے اسی طرح “مُوکِل الربا” کا ترجمہ سود کھلانے والا جب کیا جائے گا تو درحقیقت اس سے مراد سود دینے والا ہی ہوگا نہ کہ وہ جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش کرے.
ليكن غامدی صاحب نے لفظی اردو ترجمے (سود کھلانے والا) کو مترجم زبان میں محاورے کا رنگ دیتے ہوئے، اس سے اپنی مرضی کا مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی ہے یعنی سود کھلانے والے سے مراد سود دینے والا نہیں بلکہ سود خور کو گاہک فراہم کرنے والا ہے، وہ اس طرح کہ وہ سود خوری کے گاہک فراہم کر کے سود خور کو سود کھلاتا ہے. ليكن در حقیقت یہ غلطی ان سے اپنی زبان میں محاورے کو گھسیٹنے سے ہوئی جبکہ کوئی عام عرب ایسی غلطی غلطی سے بھی نہیں کر سکتا.
مزید یہ کہ صحیح مسلم کی ہی ایک اور حدیث میں جہاں سود کی ایک خاص قسم (ربا الفضل) کی حرمت بیان ہوئی وہاں الفاظ یہ ہیں “الآخذ والمعطي سواء في الربا” یعنی سود کے معاملے میں لینے والا اور دینے والا جرم کرنے میں برابر ہیں اور زیر نظر حدیث کے آخر میں بھی یہی الفاظ ہیں کہ سود کھانے والا سود کھلانے والا اسی طرح سود کی کتابت کرنے والا اور سود پر گواہ بننے والے سب جرم کرنے میں برابر ہیں (واضح رہے کہ دونوں چیزوں میں فرق ہے ایک یہ کہ جرم کرنے میں برابر ہونا اور دوسرا یہ کہ برابر کے مجرم ہونا)
دوسرا غامدى صاحب کا یہ اشکال کہ سود دینے والا (قرض دار) ہر حالت میں مظلوم يا لائق ہمدردی ہوتا ہے درست نہیں کیونکہ
ضروری نہیں کہ سود دینے والا (قرض دار) اپنی ذاتی ضرورت اور حاجت کے لیے قرض لے بلکہ سودی معاملے کی نوعیت تجارتی سود کی بھی ہو سکتی ہے کہ جہاں قرض لینے والے کی غرض بھی اس سے مزید مال بنانا ہو. کیا اس صورت میں بھی وہ سودى قرض لینے کے لیے مجبور سمجھا جائے گا اور ايسى مجبوری کا اعتبار كيا جائے گا؟
اسى طرح معاملے کی نوعیت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ قرض دار کا قرض خواه کو بڑھا چڑھا کر سود كى ادائیگی کی ضمانت دینا اور اپنے اس حربے کے ذریعے قرض خواه سے زیادہ قرضہ وصول کرنا ہو. تو کیا اس صورت میں بھی اس کا عمل لائق ہمدردی ہو سکتا ہے؟
درحقيقت غامدی صاحب کے اس موقف میں بھی جو اصل فکر يا اصول کار فرما ہے وہ یہی ہے کہ قرآن میں چونکہ سود دینے والے کى مذمت مذکور نہیں اور ان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حیثیت نہیں کہ وہ کوئی مستقل بذات حکم خود سے بیان کر سکیں جس کا قرآن میں کسی صورت ذکر نہ ہو لہذا اگر بالفرض حدیث میں ايسى کوئی چیز واضح طور نظر آ بھی رہی ہو تو اسے نظر کا دھوکہ سمجھا جائے گا!

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

فکرِ فراہی کا سقم

فکرِ فراہی کا سقم

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عربی دانی کا انکار نہیں اور نہ...