غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 96)

Published On August 12, 2024
غامدی صاحب کا الہ اور قرآن

غامدی صاحب کا الہ اور قرآن

ڈاکٹر زاہد مغل محترم غامدی صاحب اہل تصوف کی فکر کو خارج از اسلام دکھانے کے لئے یہ تاثر قائم کرواتے ہیں کہ توحید سے متعلق ان کے افکار قرآن میں مذکور نہیں۔ اپنے مضمون "اسلام اور تصوف" میں آپ الہ کا یہ مطلب لکھتے ہیں: " ’الٰہ‘ کا لفظ عربی زبان میں اُس ہستی کے لیے بولا...

غلامی : پہلے، اب اور آئندہ

غلامی : پہلے، اب اور آئندہ

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد رمضان کے مہینے میں سوشل میڈیا پر عموماًً مذہبی مسائل پر بحث چلتی ہے۔ بعض لوگ ایسے موقع کو مذہب پر اعتراض کےلیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا ایک مرغوب موضوع غلامی ہے اور یہ عموماً مسلمانوں کو ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کےلیے یا تو ماضی کی...

قرآن کی تعلیم: فقہی روایت اور مکتب فراہی ( ایک مکالمہ)

قرآن کی تعلیم: فقہی روایت اور مکتب فراہی ( ایک مکالمہ)

ڈاکٹر زاہد مغل یہ مکالمہ چند امور کو واضح کرنے کے لئے تحریر کیا گیا ہے۔ "م ف" سے مراد مکتب فراہی کے منتسب ہیں اور "ف ر" سے مراد فقہی روایت کے منتسب۔ م ف: مدارس میں براہ راست قرآن مجید کی تعلیم تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہاں کلام، اصول فقہ، فقہ، حدیث، لغات وغیرہ...

غامدی صاحب اور سائنس

غامدی صاحب اور سائنس

محمد حسنین اشرف "حقائق کی وضاحت حقیقت نہیں ہوتی" یہ بات نہایت اہم ہے کہ آپ کسی علم کے بارے میں عمومی رائے کیا قائم کرتے ہیں۔ کیونکہ یہی عمومی رائے آپ کو پھر اس کی تھیوریز وغیرہ سے متعلق رائے قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس لیے سائنس پر میٹا لیول گفتگو کو پہلے کرنا...

علمِ کلام کی ضرورت و معنویت اور جاوید احمد غامدی صاحب کی رائے پر تبصرہ

علمِ کلام کی ضرورت و معنویت اور جاوید احمد غامدی صاحب کی رائے پر تبصرہ

مشرف بیگ اشرف جس طرح مسلمانوں کی تاریخ میں، قانون کے لیے فقہ، اور قانون کي نظری بنیادوں اور مسلمانوں کے ہاں رائج لسانی نظریات کے لیے اصول فقہ میدان رہا ہے، اسی طرح علمیات، وجودیات، الہیات، قضیہ عقل ونقل اور نظریہ اخلاق کی بحث کے لیے علم کلام میدان رہا ہے۔ یہی وجہ ہے...

نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

محمد حسنین اشرف حالیہ ویڈیو میں غامدی صاحب نے نظریہ ارتقا پر بات کرتے ہوئے ایک بہت ہی صائب بات فرمائی کہ نظریہ ارتقا سائنس کا موضوع ہے اور اسے سائنس کا موضوع ہی رہنا چاہیے۔ دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ اپنے بچوں کو سائنس کی تحلیل سکھانی چاہیے۔ یہ بات بھی صائب ہے...

مولانا واصل واسطی

آج اس سلسلے کی تیسری آیت کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں” وامآتاکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہوا “( الحشر 7) یعنی  جوکچھ رسول تمہیں دیں وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دیں  اس سے رک جاؤ ” اس آیت کو سمجھنے کے لیے چند باتوں کاجاننا بہت ضروری ہے ۔(1) پہلی بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے چوتھے سال بنونضیر کے یہود سے ان کی دشمنیوں اورعہد شکنیوں کی بنا پرجہاد کیا تھا۔ بلکہ ان ظالموں نے انتقام لینے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور مشرکینِ مکہ سے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ساز باز کرتے رہے ۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی بھی سازش کی تھی ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو محاصرہ کرنے کے بعد جلاوطن کیا  تو ان فساق وفجار کے مدینہ سےنکل جانے اورملک بدرہونے کے بعد مسلمانوں کو کچھ سکون وراحت میسر آیا تھا ۔(2) دوسری بات یہ ہے کہ اس مسئلے میں منافقین یہود کے ساتھ ملے ہوئے تھے ۔ تعاون کابھی انہیں یقین دلایا تھا ۔ اوران کے ساتھ پروپیگنڈاکرنے میں بھی بھرپور ساتھ دے رہے تھے جس کی وجہ سے کچھ مسلمان بھی متاثر ہوگئے تھے ۔ پھر اللہ تعالی نے اس سورت میں ان کوتسلی دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی بناپر درختوں کا کاٹنا کوئی فسادنہیں تھا ۔مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ ” قران کی یہ آیت( الحشر 5) مسلمانوں ہی کو مطمئن کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے۔ کفار کومطمئن کرنا سرے سے اس کامقصود ہی نہیں ہے ۔چونکہ یہود اور منافقین کے اعتراض کی وجہ سے یابطورِخود مسلمانوں کے دلوں میں یہ خلش پیداہوگئی تھی کہ کہیں ہم فساد فی الارض کے مرتکب تونہیں ہوگئے ہیں ؟اس لیے اللہ تعالی نے ان کو اطمینان دلادیا کہ محاصرے کی ضرورت کے لیے کچھ درختوں کوکاٹنا ،اور جودرخت محاصرے میں حائل نہ تھے ان کونہ کاٹنا  یہ دونوں ہی فعل قانون الہی کے مطابق درست تھے ( تفہیم القران ج5ص 387) اس سے ہماری بات کی وضاحت الحمد للہ ہوگئی ہے ۔(3) تیسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  وحی خفی  کے ذریعے سے ان کے نخلستان کے کچھ حصے کو کاٹ دیا تھا۔ اورکچھ کو چھوڑ دیاتھا ۔ اس عمل کو یہود اورمنافقین نے مل کر براکہنا شروع کردیا  جیساکہ بخاری مسلم اورمسندِاحمد میں سیدنا عبداللہ بن عمر سے مروی ہے ۔ مگر ان لوگوں نے یہ مشہور کردیاکہ یہ جناب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کاذاتی فیصلہ ہے  جو فساد پر مشتمل ہے ۔ وحی یعنی قران کے نصوص پر مبنی نہیں ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی کبھی کسی کو فساد کرنے کاحکم نہیں دیتا ۔ اللہ نے جب اس کے بعد یہ سورت بطورِ وحی نازل فرمائی تو دیگرباتوں کے ساتھ اس استدلال یا شبہ پر بھی تبصرہ فرمایا کہ یہ جوکچھ رسولِ خداصلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے   یہ کام انہوں نے اللہ تعالی کے اذن سے کیا ہے ۔ خود اپنی خواہش سے یہ کام نہیں کیا ہے ۔ بعض علماء کرام اسے رسولِ خدا کا اجتہاد کہتے ہیں مگر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ اگر وہ خطا کے مرتکب ہوتے تو اللہ تعالی ضرور انہیں تنبیہ کرتے ۔ مگر یہاں تو ان کی تصویب کی ہے ۔ اوریہ لازم نہیں ہے کہ ہرحکم قران کے نصوص میں موجود ہو ۔ اس تیسری بات سے مسلمانوں کو دوفائدے حاصل ہوئے ہیں (1) ایک فائدہ یہ ہواہے کہ  وحی  محض قران میں منحصر نہیں ہے جیساکہ ہمارے دور کے منکرینِ حدیث کا موقف ہے ۔ بلکہ قران سے باہر بھی وحی کا وجودثابت ہے ۔ جیساکہ سورتِ حشر اوربعض دیگر سورتوں سے معلوم ہوتاہے  ۔ہم اس وقت اس موضوع پرتفصیل نہیں کرسکتے ۔ یہ بحث اگرکسی جگہ موقع مل گیا تو وہاں کرلیں گے ۔ان شاءاللہ تعالی ۔(2) دوسرا فائدہ یہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کو اس آیت میں اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیئے ہوئے احکام وفرامین کو دل کی خوشی اورقبولیت کے ساتھ لیا کرو ۔ چاہے وہ قران میں موجود ہو یا نہ ہو ۔ ان کے بعض احکام کو قبول کرنا اور بعض کو رد کرنا منافقین کا شیوہ اوروتیرہ ہے ۔  اب اس پس منظر کی روشنی میں جب ہم اس آیت کا مطالعہ کرتے ہیں  توتمام ان آحادیث کا اخذ اورقبول کرنا دین کا اصل الاصول لگتا ہے  کہ جن کے اسناد درست اورصحیح ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ سلفِ طیب نے بھی اس آیت کوتمام امور کےلیے عام رکھاہے ۔ خطیب بغدادی الکفایہ میں سیدناعبداللہ بن مسعود سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اس آیت کو واشمہ اورمستوشمہ کے احکام تک متعدی کیاتھا ” ان امرءة من بنی اسد اتت عبداللہ بن مسعود فقالت انہ بلغنی انک لعنت ذیت وذیت والواشمہ والمستوشمہ ۔ وانی قراءت مابین اللوحین فلم اجدالذی تقول وانی لاظن علی اہلک منہا ۔ قال فقال لہا عبداللہ فادخلی فانظری فدخلت فنظرت فلم ترشیئا ثم خرجت فقالت لم ار شیئا فقال لہا عبداللہ اما قرءت ۔۔وما اتکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہوا ۔۔قالت بلی قال فہو ذاک” ( بخاری مسلم ۔ احمد )  مگرافسوس کہ اس زمانےبعض منکرینِ حدیث نے اس آیت کو اس وسیع مفہوم سے نکال کراپنے مزعوم مطلب تک محدود کردیا ہے ۔ مثلا جناب غامدی کی تفسیر وتشریح کو پہلے دیکھ لیں جنہوں اپنے استاد امام  کی تفسیر سے اس آیت کے آخری الفاظ ” ان اللہ شدید العقاب ” کی تفسیرتونقل کی ہے مگر باقی آیت پر بحث کرنے کویکسر نظرانداز کیاہے ۔ جناب نے ایسا کیوں کیاہے ؟ اسکی وجہ ذکی لوگوں پر مخفی نہیں ہے ۔ جناب غامدی ان آخری الفاظ کی یہ تفسیر کرتے ہیں کہ ” یہ تہدید ووعید بتارہی ہے کہ اوپر جووضاحت کی گئی ہے  وہ منافقین کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراض کے جواب میں کی گئی ہے ۔ اس لیے کہ سوال اگرمحض تحقیقِ  مسئلہ کےلیے اورمخلصین کی طرف سے ہوتا تواس تہدید کاکوئی موقع نہیں تھا “( البیان ج5ص 167) جناب غامدی کے  استاد امام  نے اس منقول عبارت کے بعد لکھا اورخوب لکھا کہ”یہاں رسول کایہ درجہ جوواضح فرمایاگیاہے کہ جوکچھ وہ دے وہ لے لو اورجس سے روکے اس سے رک جاؤ ۔اگرچہ اس کاایک خاص محل ہے لیکن اس جوحکم مستنبط ہوتا ہے  وہ بالکل عام ہوگا یعنی زندگی کے ہرمعاملے میں  رسول کے ہرحکم ونہی کی بے چون وچرا تعمیل کی جائے گی ۔اس لیے کہ رسول کی حیثیت  جیساکہ قران میں تصریح ہے اللہ تعالی کے مقرر کیے ہوئے ایک واجب الاطاعت ہادی کی ہوتی ہے ۔فرمایاہے کہ ۔ وماارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ ( النسا64) یعنی ہم نے نہیں بھیجا کوئی رسول مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے ۔ گویا اس ٹکڑے کے دومفہوم ہونگے ایک خاص ۔ دوسرا عام ۔ اپنے خاص مفہوم کے پہلو سے یہ اپنے سابق مضمون سے مربوط ہوگا ۔اور اپنے عام مفہوم کے اعتبار سے اس کی حیثیت اسلامی شریعت کے ایک ہمہ گیر اصول کی ہوگی” ( تدبرِ قران ج 8 293)  مولانا اصلاحی کی اس عبارت سے احباب جان گئے ہونگےکہ جناب غامدی نے اس کو بلاوجہ ترک نہیں کیاہے ؟ ۔ زندگی کے ہرمعاملے میں بے چون وچرا رسول کی اطاعت  قبول ہوتی تو پھر وہ آحادیث کے منکرکیوں ہوجاتے ؟ اب ہم اسی آیت کے متعلق مولانا مودودی کی عبارت نقل کرنا چاہتے ہیں ۔ کیونکہ غامدی ان دوکے عمومی افکارکو ہی اپنے نام سے پیش کرتے ہیں اگرچہ انکارحدیث میں منفرد ہیں ۔وہ لکھتے ہیں ” لیکن چونکہ حکم کے الفاظ عام ہیں اس لیے یہ صرف اموالِ فے کی تقسیم تک محدود نہیں ہے   بلکہ اس کامنشایہ ہے کہ تمام معاملات میں مسلمان رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی اطاعت کریں ۔اس منشا کویہ بات اورزیادہ واضح کردیتی ہے کہ جوکچھ رسول تمہیں دے  کے مقابلے میں جو کچھ نہ دے  کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے گئےہیں ۔ بلکہ فرمایایہ گیاہے کہ ” جس چیز سے وہ تمہیں روک دے  ( یامنع کردے ) اس سے رک جاؤ ” اگر حکم کامقصود صرف اموالِ فے  کی تقسیم کے معاملے تک محدود کرناہوتاتو “جوکچھ دے” کے مقابلے میں “جوکچھ نہ دے” فرمایاجاتا ۔منع کرنے سے یاروک دینے کے الفاظ کا اس موقع پرلانا خود یہ ظاہرکردیتاہے کہ حکم کامقصود حضور کے امرونہی کی اطاعت ہے یہی بات ہے جوخود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمائی ہے ۔حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ” اذامرتکم بامر فائتوا منہ مااستطعتم ومانہیتکم عنہ فاجتنبوہ ” جب میں تمہیں کسی بات کاحکم دوں توجہاں تک ممکن ہواس پرعمل کرو اورجس بات سے روک دوں اس سے اجتناب کرو بخاری ومسلم ” ( تفہیم القران ج5 ص 394) یہ بات جو مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی نے لکھی ہے کوئی نئی بات نہیں بلکہ تفسیر کی مسلمہ اصول میں ایک ہے کہ ” العبرةلعموم الالفاظ لالخصوص السبب “خلاصہ یہ ہواکہ قران کی فقط ان چند آیتوں کو بھی اگر کماحقہ پڑھا ، سمجھا   اورمانا جائے توبندہ منکرِحدیث کبھی نہیں بن سکتا ۔ یہی وجہ ہے منکرینِ حدیث سب سے پہلے قرانی آیات میں تحریفات وتاویلات کا دروازہ کھولتے ہیں ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…