غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 97)

Published On August 12, 2024
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 3)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 3)

مولانا واصل واسطی گذشتہ بحث سے معلوم ہوا کہ جناب غامدی نے ،، سنت ،، کی صرف الگ اصطلاح ہی نہیں بنائی ، بلکہ اس میں ایسے تصرفات بھی کیے ہیں جن کی بنا پر وہ بالکل الگ چیز بن گئی ہے ۔ دیکھئے کہ فقھاء اوراصولیین کی ایک جماعت نے بھی ،، حدیث ،، اور ،، سنت ،، میں فرق کیا ہے ۔...

ایک تہائی مال سے زائد کی وصیت پر غامدی صاحب  کے موقف کا تنقیدی جائزہ

ایک تہائی مال سے زائد کی وصیت پر غامدی صاحب کے موقف کا تنقیدی جائزہ

وقار اکبر چیمہ   تعارف دینِ اسلام میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے انسان کو عطاء کئے گئے مال میں سے صرف ایک تہائی پر اسے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اس کی وصیت جس کو چاہے کر سکتا ہے۔ جبکہ باقی مال اس کی موت کے بعد اسی وراثت کے قانون کے تحت تقسیم کیا جائے گا جسے اللہ نے...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 3)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 2)

مولانا واصل واسطی ہم نے پہلی پوسٹ میں لکھاہے کہ جناب غامدی کلی طور پرمنکرِحدیث ہیں ، کہ وہ حدیث کو سرے سے ماخذِدین اور مصدرِشریعت نہیں مانتے ، انہوں نے اپنی فکرکی ترویج کے لیے جن اصطلاحات کو وضع کیاہے ان میں سے ایک اصطلاح  ،، سنت ،، کی بھی ہے ، عام علماء کرام ،، حدیث...

فراہی مکتب فکر کا قطعی الدلالت: جناب ساجد حمید صاحب کی تحریر سے مثال

فراہی مکتب فکر کا قطعی الدلالت: جناب ساجد حمید صاحب کی تحریر سے مثال

ڈاکٹر زاہد مغل محترم غامدی صاحب کے شاگرد محترم ساجد حمید صاحب نے کسی قدر طنز سے کام لیتے ہوئے اصولیین کے اس تصور پر تنقید کی ہے کہ الفاظ قرآن کی دلالت ظنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بگاڑ کی اصل وجہ امام شافعی ہی سے شروع ہوجاتی ہے جس میں اصولیین، فلاسفہ و صوفیا نے بقدر...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 3)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 1)

مولانا واصل واسطی ہم نے یہ بات اپنی مختلف پوسٹوں میں صراحت سے بیان کی ہے ، کہ جناب جاوید غامدی، غلام احمدپرویز کی طرح  بالکل منکرِحدیث ہیں ۔البتہ ان کا یہ فلسفہ پیچ درپیچ ہے ، وہ اس لیے کہ انھوں نے پرویز وغیرہ کا انجام دیکھ لیا ہے ، اب اس برے انجام سے وہ بچنا چاھتے...

قطعی و ظنی الدلالۃ: امام شافعی پر جناب ساجد حمید صاحب کے نقد پر تبصرہ

قطعی و ظنی الدلالۃ: امام شافعی پر جناب ساجد حمید صاحب کے نقد پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل جناب ساجد حمید صاحب نے اپنی تحریر “قرآن کیوں قطعی الدلالۃ نہیں؟”میں فرمایا ہے کہ امت میں یہ نظریہ امام شافعی اور ان سے متاثر دیگر اصولیین کی آرا کی وجہ سے راہ پا گیا ہے کہ الفاظ قرآن کی دلالت قطعی نہیں۔ آپ نے امام شافعی کی کتاب الرسالۃ سے یہ تاثر دینے...

مولانا واصل واسطی

 جناب غامدی  پیغمبر کی سرگذشت کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں ” رسالت ایک خاص منصب ہے جونبیوں میں چند ہی کو حاصل ہواہے ۔ قران میں اس کی تفصیلات کے مطابق رسول اپنے مخاطبین کےلیے خداکی عدالت بن کرآتا ہے اور ان کافیصلہ کرکے دنیا سے رخصت ہوتا ہے ۔ قران بتاتا ہے کہ رسولوں کی دعوت میں یہ فیصلہ انذار ، انذارِعام ،اتمامِ حجت اور ہجرت کے مراحل سے گذر کر صادرہوتا  ہےاور اس طرح صادر ہوتاہے کہ آسمان کی عدالت زمین پرقائم ہوجاتی ہے خدا کی دینونت کاظہور ہوتا ہے ۔ اورسول کے مخاطبین کے لیے ایک قیامتِ صغری برپا کردی جاتی ہے ۔ اس دعوت کی جو تاریخ قران میں بیان ہوئی ہے   اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس موقع پر بالعموم دوہی صورتیں پیش آتی ہیں ۔ ایک یہ کہ پیغمبر کے ساتھی بھی تعداد میں کم ہوتے ہیں ۔ اوراسے کوئی دارالہجرت بھی میسر نہیں ہوتا ۔ دوسرے یہ کہ وہ معتدبہ تعداد میں اپنے ساتھیوں کو لے کر نکلتاہے ۔ اس کے نکلنے سے پہلے ہی اللہ تعالی کسی سر زمین میں اس کے لیے آزادی اورتمکن کے ساتھ رہنے بسنے کا سامان کردیتے ہیں ۔ ان دونوں ہی صورتوں میں رسولوں سے متعلق خدا کی وہ سنت لازما روبہ عمل ہوجاتی ہے  جوقران میں اس طرح بیان ہوئی ہے ” ان الذین یحادون اللہ ورسولہ اولئک فی الاذلین کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی ان اللہ قوی عزیز ( المجادلہ 20 ۔21) یعنی بے شک وہ لوگ جو اللہ اور رسول کی مخالفت کررہے ہیں  وہی ذلیل ہوں گے ۔اللہ نے لکھ رکھا کہ میں اورمیرے رسول غالب رہیں گے بے شک اللہ قوی ہے بڑا زبردست ہے “( میزان ص 48) ہمارے نزدیک یہ باتیں اس مکتب کی خانہ ساز ہیں ۔ تاریخی حقائق سے ان باتوں کاکوئی تعلق نہیں ہے ۔ بہرحال ہم چند باتیں عرض کیے دیتے ہیں (1) پہلی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ جناب غامدی بیک وقت دو بالکل متضاد باتیں کرتے ہیں مگر مجال ہے کہ ان کو اس کااحساس ہوجائے ۔ دیکھئے سیدنا عیسی علیہ السلام کے متعلق انہوں نے لکھاہے (یہ عبارت آنے والی ہے) کہ آسمانی آفات اس لیے نازل نہیں ہوئیں کہ وہ لوگ توحید سے وابستہ تھے ۔ ان پر ہمیشہ کے لیے ذلت مسلط کی گئی ۔ اگر توحید سے وابستہ لوگوں کو قتل وغیرہ کی سزائیں نہیں ملتیں  تو پہر بنو قریظہ کو اس قانون سے کیوں مستثنی کیا گیا کہ ان کے سب مرد قتل کیے گئے؟ اور اگران کا قتل عہد شکنی کی بنا پر تھا   تو پھر اسے اتمامِ حجت کے قانون کے تحت  ذکر کرنے کی کیا وجہ ہے ؟ کیونکہ ان کے قتل کا سبب توپھران کی عہد شکنی ہے ۔اور عہد شکنی کی سزا تو ہر قوم کو ہر زمانے میں دی جاسکتی ہے ۔کسی رسول کے ساتھ اس کے اختصاص کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے ۔ خود جناب غامدی نے لکھا ہے کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں یہی دوسری صورت پیداہوئی ۔ چنانچہ اتمامِ حجت کے بعد پہلے یہود مغلوب ہوئے ۔معاہدات کی وجہ سے انہیں تحفظ حاصل تھا ۔ لہذاان میں سے جس نے بھی نقضِ عہد کاارتکاب کیا اللہ کے رسول کے جھٹلانے کی یہ سزاان پر نافذ کردی گئی۔ بنو قینقاع کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر اوربنو نضیر کو شام کی طرف جلاوطن کردیا ۔ پھر خیبر پرحملہ کرکے وہاں بھی ان کی قوت توڑدی گئی ۔ اس سے پہلے انہی کے لوگوں میں ابو رافع اور کعب بن اشرف کوان کے گھروں میں قتل کرادیا گیا۔ بنو قریظہ نے غزوہِ خندق کے موقع پرغداری کی ۔احزاب کے بادل چھٹ گئے اورباہرسے کسی حملے کاخوف نہیں رہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا ان کا محاصرہ کرلیا۔ اس سے عاجز ہوکر انہوں نے درخواست کی کہ سعد بن معاذ ہمارے حق میں جوفیصلہ کریں  وہ ہمیں منظور ہے ۔اس پرسعد بالاتفاق حکم بنائے گئے ۔ اس لیے سعدرضی اللہ عنہ نے تورات کے مطابق فیصلہ کردیا کہ بنوقریظہ کے بالغ مرد قتل کیے جائیں ۔ عورتوں اوربچوں کو قیدی بنالیاجائے اوران کامال مسلمانوں میں بانٹ دیا جائے ۔ سعد بن معاذ کا یہ فیصلہ نافذ کیا گیا اور اس کے مطابق تمام مرد قتل کردئے گئے “( میزان ص 597) اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کی عہد شکنی کی سزا تھی   ورنہ اگر اتمام حجت کی سزا ہوتی  توپھر عورتیں کیوں مستثنی ہوجاتیں؟ اتمامِ حجت توان پربھی ہوئی تھی ؟اب اس درج عبارت کی ابتداء میں دیکہ لیں ۔ پہلے لکھا کہ ” جس نے بھی نقضِ عہد کاارتکاب کیا ”  پھر لکھا ” ان کورسول کے جھٹلانے کی سزادی گئی ” لکھنا یہ چاہئے تھا کہ   جس  نےنقضِ عہد کاارتکاب کیا ان کو عہد شکنی کی سزادی گئی ۔ مگر جناب نے ” جھٹلانے کی سزا ” کی بات لکھ دی ہے  تاکہ انکے وضع کردہ قانونِ اتمام حجت پر کوئی حرف نہ آجائے ۔اس سے احباب اندازہ کرسکتے ہیں کہ جناب غامدی کس طرح تحریف وتلبیس سے اپنے مطلوب مسائل کوثابت کرتے ہیں ؟ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ تورات میں یہ سزا عہد شکنی کی ہے ۔ قانونِ اتمامِ حجت  کا وہاں کوئی نام ونشان ہی نہیں ہے ۔(2) دوسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کے ساتھ  وابستہ ہونے کی وجہ سے یہ رعایت کی گئی کہ ان کو ہلاک کرنے کے بجائے مغلوب رکھا گیا ۔ جیسا کہ جناب غامدی نے لکھا ہے ۔ پہلی صورت میں رسول کے قوم کو چھوڑدینے کے بعد یہ ذلت اس طرح مسلط کی جاتی ہے کہ آسمان کی فوجیں نازل ہوتیں ہیں ، ساف وحاصب کاطوفان اٹھتا اورابروباد کے لشکر قوم پر اس طرح حملہ آور ہوجاتے ہیں کہ رسول کے مخالفین میں سے کوئی بھی زمین پرباقی نہیں رہتا ۔ قران سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح ، قوم لوط ، قوم صالح ، قوم شعیب   اور اس طرح کی بعض دوسری اقوام کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا ۔ اس سے مستثنی صرف بنی اسرائیل رہے  جن کی اصلا توحید ہی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے سیدنا مسیح علیہ السلام کے ان کو چھوڑنے کے بعد ان کی ہلاکت کے بجائے ہمیشہ کےلیے مغلوبیت کا عذاب ان پر مسلط کردیا گیا” ( میزان ص 49) ہم جناب سے پوچھتے ہیں کہ اہلِ مکہ اصلا توحید سے وابستہ تھے یا نہیں تھے ؟ اگروہ توحید سے وابستہ تھے   تو پھر ان کے ساتھ کیوں بنی اسرائیل والی رعایت نہیں ہوئی ؟ اور اگر وہ توحید سے اصلا وابستہ نہیں تھے   تو پھرکفار سے سنتِ ابراہیمی لینا کیوں کر جائز ہوگا جبکہ غامدی نے پیچھے کے مباحث میں اہلِ مکہ کے عمل سے سنتِ ابراہیمی کے ثبوت پیش کرنے کے جتن کیے تھے ۔ پھر جب یہود اصلا توحید  سے وابستہ تھے   تو جب سیدنا عیسی علیہ السلام کے زمانے میں ان کو ہلاکت وبربادی کے بجائے مغلوبیت کی سزا دی گئی  تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں کیوں انہیں قتل کی سزادی گئی ؟ یہ بات ہم اس بنیاد پرکررہے ہیں کہ اگر بنی قریظہ کو اتمامِ حجت والی سزا دی گئی تھی   اوراگر انہیں عہد شکنی کی سزا دی گئی تھی ۔ توپھر جناب کے استدلال کی بنیاد ہی اڑگئی ہے الحمدللہ ۔ اسی طرح بنو نضیر کو شام کی طرف اوربنو قینقاع کو خیبر کی طرف کیوں جلاوطن کرنے کی سزادی گئی ؟ ان کو کیوں قتل کی سزا نہیں دی گئی ؟ اگر ان پر اتمامِ حجت ہوا تھا تو پھر تو ان کا خاتمہ ضروری تھا ۔ جلاوطنی کوخاتمہ تو نہیں کہاجاسکتا ہے ۔ اورپھر محض ان کی قوت کو توڑنے( دیکھئے میزان ص596)  پر کیوں اکتفاء کیا گیا ۔جبکہ باقی اتمامِ حجت والوں کا اللہ تعالی نے بقول غامدی بالکلیہ صفایا کیا تھا   جیساکہ ہم  نےپیچھے لکھا ہے کہ یہ کوئی قانون نہیں ہے ۔ بلکہ غامدی اور ان کے  استادامام  وغیرہ کا بنایاافسانہ ہے ۔ ورنہ اتنے رخنے توکسی فاسد سے فاسد قانون میں بھی نہیں ہوتے ۔(3) تیسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ جناب ایک ہی موضوع میں دوایسی آیات سے بھی استدلال کرتے ہیں  جن میں ایک آیت کا مفہوم دوسری آیت سے بالکل مختلف ہے ۔ مثلا سورہِ یونس کی آیت ہے ” ولکل امة رسول فاذا جاء رسولہم قضی بینہم بالقسط وہم لایظلمون  یعنی  ہرامت کے لیے ایک رسول ہوتے ہیں  پس جب وہ ان کے آجاتے ہیں توان کے درمیان پھر انصاف سے فیصلہ چکادیا جاتا ہے اوران پرکوئی ظلم نہیں کیاجاتا ” ( یونس 47) دوسری آیت المجادلہ کی ہے ” ان الذین یحادون اللہ ورسولہ اولئک فی الاذلین ۔کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی ان اللہ قوی عزیز ( المجادلہ 20 ۔21) یعنی بےشک وہ لوگ جواللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہی ذلیل ہوں گے اللہ نے لکھ رکھاہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے ۔یقینا اللہ قوی ہے اوربڑازبردست ہے ” اب دیکھو پہلی آیت میں ہے کہ جب رسول کسی قوم میں آتا ہے تو اس کا فیصلہ انصاف سے چکادیا جاتا ہے ۔ دوسری آیت میں ہے کہ اللہ ورسول کی مخالفت کرنے والے لوگ ذلیل ہونگے ۔ اولئک فی الاذلین ۔ کا مطلب  دشمنوں کا خاتمہ کرنا  اوران لوگوں کے وجود سے زمین کو پاک کردینا  کہاں سے نکل آیا ہے ؟  ہمیں نہیں پتہ ۔ یہ لوگ چونکہ لغت میں بھی اجتہاد کرتے رہتے ہیں ۔ ممکن ہے اس لیے اس لفظ کا یہ ترجمہ کیا ہو ۔ ورنہ لغت میں تو یہ مفہوم اس لفظ کاموجود نہیں ہے ۔ اوراگر یہ لوگ ” لاغلبن ” سے یہ مفہوم برآمد کرتے ہیں   تو اس کی ہم نے پہلے ہی وضاحت کی ہے ۔ یہاں تو بات اور بھی صاف ہوگئی ہے کہ بنو نضیر وبنو قینقاع کا خاتمہ نہیں ہوا تھا ۔کسی کو وطن سے نکالنا اس کا خاتمہ تو نہیں ہوتا ورنہ لوگ پھر ہجرتِ حبشہ ومدینہ کو بھی خاتمہ قرارادیں گے ۔ بلکہ خود غامدی نے اعتراف کیا ہے ” کہ صرف ان کی قوت توڑدی گئی تھی ” اب اگر کوئی بندہ سوچے تو قانونِ اتمامِ  حجت میں کچھ اور وسعت جناب کو پیداکرنی ہوگی   کیونکہ بنونضیر اور بنوقینقاع کے لوگوں کو بھی اس میں شامل کرنا ہوگا ۔ اس لیے کہ وہ نہ جناب کے متعین کردہ پہلی صورت میں درج ہوسکتے ہیں  اور نہ دوسری صورت میں درج ہوسکتے ہیں ۔ مگر اتمامِ حجت بقولِ غامدی ان پر بھی دیگر اقوام کی طرح ہوا تھا ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…