احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 3

Published On September 27, 2025
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 70)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 70)

مولانا واصل واسطی سنن کی اس فہرست میں ادھر جناب غامدی نے آخری چیز کا ذکر ،، ختنہ ،، کیا ہے۔ پر اس کے آخر میں لکھتے ہیں کہ ،، دینِ ابراہیمی کی روایت کا یہ حصہ جسے اصطلاح میں ،، سنت ،، سے تعبیر کیاجاتاہے  قران کے نزدیک خدا کا دین ہے ۔وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 70)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 69)

مولانا واصل واسطی سنن کی اس فہرست میں ادھر جناب غامدی نے آخری چیز کا ذکر ،، ختنہ ،، کیا ہے۔ پر اس کے آخر میں لکھتے ہیں کہ ،، دینِ ابراہیمی کی روایت کا یہ حصہ جسے اصطلاح میں ،، سنت ،، سے تعبیر کیاجاتاہے  قران کے نزدیک خدا کا دین ہے ۔وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 70)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 68)

مولانا واصل واسطی جناب  غامدی صاحب کی ایک مختصر عبارت دیکھ لیں۔ ،، نماز ، روزہ ، حج ، زکوة ، اورقربانی کاحکم بھی اگرچہ جگہ جگہ قران میں آیا ہے ، اور اس نے ان میں بعض اصلاحات بھی کی ہیں لیکن یہ بات خود قران ہی سے واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی ابتدا پیغمبر کی طرف سے دینِ...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 70)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 67)

مولانا واصل واسطی اوپر جناب غامدی کی جو عبارت نقل ہوئی ہے   اس میں دوسری بات ،، اعتکاف اور ختنہ ،، کی انہوں نے کی ہے ۔ہم اس مبحث میں ،، اعتکاف ،، پر کچھ کہنا چاہیں گے ۔اگے پھر دیگر عنوانات ہوں گے۔ جناب غامدی نے ،، سنتِ ابراہیمی ،، کے حوالے سے دو باتیں لکھی ہیں ۔ ایک...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 70)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 66)

مولانا واصل واسطی اب ہم  جناب غامدی کی عبارت نقل کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں ،، یہی معاملہ قربانی ، اعتکاف ، ختنہ ، اوربعض دوسرے رسوم وآداب کاہے ۔یہ سب چیزیں پہلے سے رائج ، معلوم ومتعین اورنسلا بعد نسلِ جاری ایک روایت کی حیثیت سے پوری طرح متعارف تھیں۔ چنانچہ اس بات کی کوئی...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 65)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 65)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے اوپر جوبات لکھی ہے  اس کے لیے بخاری اورمسلم کے دوآحادیث کا حوالہ دیا ہے ۔ ہم پہلے ان آحادیث کو پڑھتے ہیں   پھر اپنی باتیں اس کے متعلق احباب کی خدمت میں پیش کریں گے ۔ جبیر ابن مطعم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ،، کنت اطلب بعیرا لی فذھبت...

مفتی عبد الواحد

اس کے باوجود آدمی نہ تو اپنے ذہنی میدان اور اپنی خواب کی دنیا کے کسی حصہ سے جدا ہوتا ہے اور نہ ہی آدمی اس ذہنی میدان اور خواب کی دنیا کی اشیاء میں حلول کرتا ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ متحد ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اللہ تعالی کا وجود منبسط پر پھیلے ہوئے اس عالم کے ساتھ سمجھیں۔

یہ بھی سمجھیں کہ جیسے آئینہ ان عکوس کے قیام اور تعین کے لیے جو اس میں نظر آتے ہیں اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور اس اعتبار سے آئینہ کو ان عکوس کا قیوم کہا جا سکتا ہے، اسی طرح وجود منضبط کو بھی اشیاء عالم کا قیوم کہا جا سکتا ہے۔

یہ صوفیہ کی ذوقی اور کشفی تحقیق ہے جو بہر حال قرآن و سنت کے منافی نہیں ہے۔ لیکن غامدی صاحب اگر کچھ نہ بولیں تو لوگوں کو ان کے محقق ہونے کا کیسے پتہ چلے۔ لکھتے ہیں:
“قرآن کی رو سے توحید بس یہ ہے کہ اللہ صرف اللہ ہی کو مانا جائے جو ان تمام صفات کمال سے منزہ اور عیوب و نقائص سے پاک ہے جنہیں عقل مانتی ہے اور جن کی وضاحت خود اللہ پروردگار عالم نے اپنے نبیوں کے ذریعے سے کی ہے۔” [برہان: ۱۴۷]

صوفیہ کے نظریہ کی جو تفصیل ہم نے اوپر ذکر کی وہ ذرہ برابر بھی غامدی صاحب کی بیان کی ہوئی توحید کے معارض نہیں، لیکن غامدی صاحب یہ کہنے پر بضد ہیں کہ تصوف اس دین کے اصول و مبادی سے بالکل مختلف ایک متوازی دین ہے جس کی دعوت قرآن مجید نے ابن آدم کو دی ہے۔ [برہان: ۱۴۶]

اہل تصوف کے دین میں یہ (یعنی غامدی صاحب کا ذکر کردہ) توحید کا پہلا درجہ ہے۔ وہ اسے عامہ الناس کی توحید قرار دیتے ہیں۔ توحید کے مضمون میں اس کی اہمیت ان کے نزدیک تمہید سے زیادہ نہیں۔ توحید کا سب سے اونچا درجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ موجود صرف اللہ تعالی ہی کو مانا جائے جس کے علاوہ کوئی دوسری بستی در حقیقت موجود نہیں ہے۔ تمام تعینات عالم، خواہ وہ محسوس ہوں یا معقول، وجود تھی سے مصور اور محل اعتبارات ہیں۔ ان کے لیے خارج میں وجود حق کے سوا اور کوئی وجود نہیں ہے۔ ذات باری ہی کے مظاہر کا دوسرا نام عالم ہے۔ یہ باعتبار وجود خدارہی ہے اگرچہ اسے تعینات کے اعتبار سے خدا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی ماہیت عدم ہے۔ اس کے لیے اگر وجود ثابت کیا جائے تو یہ شرک فی الوجود وہ گالا موجود الا اللہ سے اس کی نفی کی جاتی ہے۔ [برہان: ۱۳۸]

اوپر ہم نے وجود منضبط کی حقیقت ذکر کی تھی۔ اشیائے عالم کی اصل ہونے کی وجہ سے اس کو ما به التعین بھی کہتے ہیں۔ اس کے برعکس غامدی صاحب عدل و انصاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کی حقیقت یہ بتاتے ہیں:
“ما به التعین یعنی جس سے کوئی چیز موجود ہوتی ہے، مثلا لوہے سے تلوار اور چھری وغیرہ۔” [ریان: ۱۵۳]

یعنی ذات باری مرتبہ وجود منبسط ہیں۔ یہ ذات باری کا وہی مرتبہ ہے جسے ابن عربی ظاهر الوجود کہتے ہیں۔ اس مرتبہ میں ان کے نزدیک ذات باری کے لیے عالم کے ساتھ وہ نسبت وجود میں آتی ہے جو مثلا لوہے کو تلوار کے ساتھ جو اس سے بنائی جاتی ہے۔ [یر ہان: ۱۵۳]

غامدی صاحب نے ان عبارتوں میں جو غلطیاں کی ہیں ہم انہیں کھول کر بیان کرتے ہیں:

  1. صوفیہ جسے عامتہ الناس کی توحید یا توحید کا پہلا درجہ کہتے ہیں، وہ خود اس کا انکار نہیں کرتے بلکہ اسے مانتے ہیں۔ توحید کے اوپر کے جو مدارج صوفیہ بیان کرتے ہیں وہ اس کے معارض نہیں اور نہ ہی قرآن و سنت کی نصوص میں کوئی ایسی بات مذکور ہے جو ان کے خلاف ہو۔

  2. غامدی صاحب نے لکھا کہ توحید کا سب سے اونچا درجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ موجود صرف اللہ ہی کو مانا جائے جس کے علاوہ کوئی دوسری ہستی در حقیقت موجود نہیں۔ صوفیہ یہ نہیں کہتے کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسری ہستی سرے سے موجود نہیں، ورنہ پھر آخر صوفیہ اپنا وجود کیسے ثابت کرتے؟ حالانکہ ابن عربی ہوں یا غزالی ہوں، وہ اپنا وجود مان کر ہی اپنے افکار پیش کرتے ہیں۔ ان کی مراد تو فقط یہ ہے کہ جیسا وجود اللہ تعالی کی ذات و صفات کو حاصل ہے، دنیا کے وجود اشیائے عالم کو حاصل نہیں۔ ان کے مقابلے میں اشیائے عالم کا وجود عکس کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ آخر خود اپنی ذات کے اعتبار سے عکس بھی تو وجود رکھتا ہے۔

  3. غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ صوفیہ کے نزدیک عالم باعتبار وجود خدا ہی ہے۔ صوفیہ خدا اور عالم کے درمیان نہ تو اتحاد کے قائل ہیں اور نہ ہی حلول کے قائل ہیں، پھر غامدی صاحب کی بنیاد پر یہ بات ان کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ وجود کے اعتبار سے عالم خدا ہی ہے۔

  4. وجود منضبط کی حقیقت ہم بیان کر چکے ہیں کہ وہ امکانی وجود کا ایک پھیلاؤ ہے جو سب سے پہلے اللہ تعالی سے صادر ہوا اور اس کی قریب ترین مثال ہم ذہن کے میدان یا خواب کی دنیا سے دے سکتے ہیں۔ خواب کی دنیا یا ذہن کا میدان جب خود زید نہیں ہے تو وجود منبسط کب خدا ہو سکتا ہے؟ لیکن غامدی صاحب یہ کہنے پر بضد ہیں کہ صوفیہ کے نزدیک ذات باری کے لیے عالم کے ساتھ وہ نسبت وجود میں آتی ہے جو مثلا لوہے کو تلوار کے ساتھ جو اس سے بنائی جاتی ہے، یعنی دوسرے لفظوں میں جیسے لوہے سے تلوار اور چاقو بنتے ہیں، اسی طرح خدا تعالیٰ کی ذات اشیائے عالم کی شکل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

برا ہو اس بدنمی کا جس نے غامدی صاحب کو حق و توحید کے درخشندہ ستاروں پر کفر و ضلالت کی تاریک مہریں لگانے پر مجبور کر دیا، لیکن کیا ایسی باتوں سے کہیں روشنی چھپائی جا سکتی ہے؟

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

No Results Found

The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.