مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے اگے کچھ مباحث بیان کیے ہیں جن کے بارے میں ہم اپنی گذارشات احباب کے سامنے پیش کرچکے ہیں ۔آگے انھوں نے ،، حدیث اور قران ،، کے زیرِ عنوان ان حدیثی مسائل پر لکھا ہے جن کے متعلق ھہارے عام علماء کرام کا تصور یہ ہے کہ ان سے قران کے نصوص منسوخ...
احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 2
از روئے قرآن بیان نسخ: احکام زنا کی تدریج کی روشنی میں غامدی صاحب کے تصور بیان کا جائزہ
ڈاکٹر زاہد مغل مشرف بیگ اشرف جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے ہاں "تبیین" کی بحث بہت کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور آپ کی رائے میں بیان وہ امر ہے جو لفظ یا صیغہ نیز سیاق کلام وغیرہ سے سمجھا جا سکتا ہو وگرنہ وہ نسخ یا ترمیم کہلائے گا جو کسی صورت بیان نہیں۔ اس کے لیے آپ کا...
لفظ تبیین میں “ترمیم و تبدیلی” کا مفہوم شامل ہے: قرآن سے دو شہادتیں
ڈاکٹر زاہد مغل ایک تحریر میں قرآن مجید کے متعدد نظائر سے یہ ثابت کیا گیا تھا کہ قرآن کے محاورے کی رو سے نسخ، اضافہ، تخصیص و تقیید وغیرہ تبیین کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اس کے لئے ہم نے قرآن مجید میں مذکور احکام سے استشہاد کیا تھا۔ یہاں ہم دو مثالوں سے یہ واضح کرتے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 33)
مولانا واصل واسطی دوسری بات اس حوالے سے یہ ہے کہ جناب غامدی نے لکھاہے کہ ،، لہذا یہ بات عام طور پر مانی جاتی ہے کہ ان کی کوئی تعداد متعین نہیں کی جاسکتی بلکہ ہر وہ قراءتِ قران جس کی سند صحیح ہو ، جومصاحفِ عثمانی سے احتمالا ہی سہی موافقت رکھتی ہو ، اور کسی نہ کسی پہلو...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 32)
مولانا واصل واسطی قراءآتِ متواترہ پراعتراضات کے سلسلے کا اخری ٹکڑا یہ ہے جس میں جناب غامدی لکھتے ہیں کہ ،، ان کی ابتدا ہوسکتا ہے کہ عرضہِ اخیرہ سے پہلے کی قراءآت پر بعض لوگوں کا اصرار اور ان کے راویوں کے سہو ونسیان سے ہوئی ہو لیکن بعد میں انہی محرکات کے تحت جووضعِ...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 31)
مولانا واصل واسطی تیسری گذارش اس آخری اعتراض کے سلسلے میں یہ ہے کہ ،، لیث بن سعد ،، کے جس خط کا حوالہ جناب غامدی نے دیا ہے اس سے پہلے دوفقروں میں اس کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے رکھ دیا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ ،، اس کے ساتھ اگر ان کے وہ خصائص بھی پیشِ نظر رہیں جوامام لیث...
مفتی عبد الواحد
-
زید اپنی تخلیقی قوت سے جس وقت عالم خیال میں بادشاہی مسجد کو پیدا کرتا ہے تو نہ زید بادشاہی مسجد بن جاتا ہے اور نہ ہی بادشاہی مسجد زید بن جاتی ہے۔ اس کے باوجود خیالی اور علمی بادشاہی مسجد کا وجود زید کے وجود اور ارادہ سے جدا نہیں ہے۔
-
زید جس وقت اپنی خیالی بادشاہی مسجد کو ذہن میں پیدا کرتا ہے تو اس کے کسی بھی حصہ سے اپنے آپ کو غائب نہیں پاتا۔
-
زید اپنی دینی و علمی مسجد کے مینار کو توڑ دے یا اس کے کسی حصہ میں کوئی خوشبو فرض کر لے تو اس توڑ پھوڑ اور خوشبو کا اثر زید پر نہیں پڑتا۔
-
زید جب خیالی بادشاہی مسجد کو پیدا کرتا ہے تو جہاں زید ہوتا ہے وہیں بادشاہی مسجد بھی ہوتی ہے۔
اس کے بعد ہم کہتے ہیں کہ ازل میں صرف اللہ تعالیٰ تھے اور ان کے ساتھ ان کے لامحدود کمالات و صفات تھے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات و صفات کا علم تھا۔
اللہ تعالی نے ازل ہی میں اپنی متعدد صفات کی بنیاد پر لا تعداد اشیائے عالم کا تصور کیا، مثلا انسان کے لیے اللہ تعالی نے اپنی صفت علم، مفت کلام، صفت قدرت، صفت تسمع و بصر، صفت حیات وغیرہ بہت سی صفات و کمالات کو ایک خاص مقدار میں اور ایک خاص ترتیب میں تصور کیا۔ ان کو اعیان ثابتہ کہا جاتا ہے اور ان کے تصور کو تو اتائی کہا جاتا ہے۔ پھر اس ترتیب کے ظہور کے لیے ایک وقت بھی مقرر فرما دیا۔
جب وہ مقررہ وقت آتا ہے تو علم الہی میں موجود یہ صورتیں شفاف آئینہ کی طرح پھیلے ہوئے نور کے وجود منبسط پر عکس کی طرح نظر آنے لگتے ہیں۔
جیسے آئینہ میں جو عکس نظر آتا ہے وہ محض خیال اور وہم ہوتا ہے، اس کا مستقل وجود نہیں ہوتا اور اس کی حقیقت وہ جسم ہوتا ہے جو آئینہ کے محاذی ہوتا ہے۔ اسی طرح اصل حقائق وہ اعیان ثابتہ ہیں جو علم الہی میں موجود ہیں اور سرسری نظر میں ہمیں خارج میں جو اشیاء نظر آتی ہیں وہ دراصل ان حقائق کے عکوس ہیں۔
خارجی وجود تو حقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کو حاصل ہے۔ اور اعیان ثابتہ کو اس حیثیت سے کہ وہ صفت علم ہے، ان کو بھی خارجی وجود اصل ہے۔ ان کے علاوہ اس طرح کا سا خارج میں موجود کوئی اور نہیں ہے۔ مذکورہ بالا امور کی بنا پر صوفیہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی طرح کا کسی کو خارج میں ماننا شرک ہے۔ یہ نہیں کہ وہ عالم کے وجود کو نہیں مانتے بلکہ ذات و صفات کے مقابلہ میں ان کے وجود کو عکس کی حیثیت دیتے ہیں۔
یہ وجود منضبط کیا ہے؟ یہ اللہ تعالی سے صادر ہونے والا سب سے پہلا طور ہے۔ اس کو ایسے خیال کریں جیسے آدمی کے لیے اس کا ذہنی میدان یا اس کی خواب کی دنیا، کہ ان کا صدور آدمی سے ہوتا ہے اور ان کا وجود آدمی کے وجود سے ہوتا ہے لیکن ان کا وجود بھی نہ آدمی کا وجود ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
No Results Found
The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.