احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 2

Published On September 27, 2025
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 25)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 25)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے اسی مبحث میں اگے ،، سبعةاحرف ،، والی روایت کو تختہِ مشق بنایا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ،، یہاں ہوسکتاہے کہ ،، سبعة احرف ،، کی روایت بھی بعض لوگوں کے لیے الجھن کا باعث بنے ، موطا میں یہ روایت اس طرح بیان ہوئی ہے ،، عن عبدالحمن بن عبدالقاری...

نیشن سٹیٹ اور غامدی صاحب

نیشن سٹیٹ اور غامدی صاحب

ڈاکٹر تزر حسین غامدی صاحب اور حسن الیاس جب نیشن سٹیٹ کی بات کرتے ہیں تو وہ لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم نشین سٹیٹ کے دور میں جی رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے دینی فکر میں موجود اصظلاحات جدید دور میں قابل عمل نہیں اور اس چیز نے دینی فکر کو جمود کا شکار کردیا ہے۔ انکی...

غامدی صاحب کے تصور بیان کی اصولی مشکلات: “تاخیر البیان” کی روشنی میں

غامدی صاحب کے تصور بیان کی اصولی مشکلات: “تاخیر البیان” کی روشنی میں

ڈاکٹر زاہد مغل برادر عمار خان ناصر صاحب نے اپنی کتاب "قرآن و سنت کا باہمی تعلق" کا ایک باب مولانا حمید الدین فراہی و مولانا امین احسن اصلاحی صاحبان اور ایک جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور بیان پر لکھ کر ان کی خصوصیات لکھی ہیں۔ آپ نے امام شافعی کے لسانیاتی منہج بیان...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 25)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 24)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی اپنے مدرسہِ فکر کی تعریف میں یوں مدح وثنا کی حدکرتے ہیں کہ ،، قران مجید پراگر اس کی نظم کی روشنی میں تدبّر کیا جائے تو اس کے داخلی شواہد بھی پوری قطعیت کے ساتھ یہی فیصلہ سناتے ہیں ۔مدرسہِ فراہی کے اکابر اہلِ علم نے جو کام اس زمانے میں قران...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 25)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 23)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے جو روایت ابوعبدالرحمن السلمی کے نام سے پیش کی ہے  اس کے اخر میں یہ الفاظ ہیں ،، وکان زید قدشھد العرضة الاخیرة وکان یقرئ الناس بھا حتی مات ( میزان ص 29) اس روایت کی ابتدا میں بھی زید بن ثابت کا نام موجودہے مگر احباب کو یہ دیکھ کر بہت لطف...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 25)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 22)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی اسی سلسلے میں اگے لکھتے ہیں کہ ،، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ کی قراءت یہی تھی ۔ آپ کے بعد خلفاء راشدین تمام صحابہ ، مہاجرین وانصار اسی کے مطابق قران کی تلاوت کرتے تھے ، اس معاملے میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا ،...

مفتی عبد الواحد

  1. زید اپنی تخلیقی قوت سے جس وقت عالم خیال میں بادشاہی مسجد کو پیدا کرتا ہے تو نہ زید بادشاہی مسجد بن جاتا ہے اور نہ ہی بادشاہی مسجد زید بن جاتی ہے۔ اس کے باوجود خیالی اور علمی بادشاہی مسجد کا وجود زید کے وجود اور ارادہ سے جدا نہیں ہے۔

  2. زید جس وقت اپنی خیالی بادشاہی مسجد کو ذہن میں پیدا کرتا ہے تو اس کے کسی بھی حصہ سے اپنے آپ کو غائب نہیں پاتا۔

  3. زید اپنی دینی و علمی مسجد کے مینار کو توڑ دے یا اس کے کسی حصہ میں کوئی خوشبو فرض کر لے تو اس توڑ پھوڑ اور خوشبو کا اثر زید پر نہیں پڑتا۔

  4. زید جب خیالی بادشاہی مسجد کو پیدا کرتا ہے تو جہاں زید ہوتا ہے وہیں بادشاہی مسجد بھی ہوتی ہے۔

اس کے بعد ہم کہتے ہیں کہ ازل میں صرف اللہ تعالیٰ تھے اور ان کے ساتھ ان کے لامحدود کمالات و صفات تھے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات و صفات کا علم تھا۔

اللہ تعالی نے ازل ہی میں اپنی متعدد صفات کی بنیاد پر لا تعداد اشیائے عالم کا تصور کیا، مثلا انسان کے لیے اللہ تعالی نے اپنی صفت علم، مفت کلام، صفت قدرت، صفت تسمع و بصر، صفت حیات وغیرہ بہت سی صفات و کمالات کو ایک خاص مقدار میں اور ایک خاص ترتیب میں تصور کیا۔ ان کو اعیان ثابتہ کہا جاتا ہے اور ان کے تصور کو تو اتائی کہا جاتا ہے۔ پھر اس ترتیب کے ظہور کے لیے ایک وقت بھی مقرر فرما دیا۔

جب وہ مقررہ وقت آتا ہے تو علم الہی میں موجود یہ صورتیں شفاف آئینہ کی طرح پھیلے ہوئے نور کے وجود منبسط پر عکس کی طرح نظر آنے لگتے ہیں۔

جیسے آئینہ میں جو عکس نظر آتا ہے وہ محض خیال اور وہم ہوتا ہے، اس کا مستقل وجود نہیں ہوتا اور اس کی حقیقت وہ جسم ہوتا ہے جو آئینہ کے محاذی ہوتا ہے۔ اسی طرح اصل حقائق وہ اعیان ثابتہ ہیں جو علم الہی میں موجود ہیں اور سرسری نظر میں ہمیں خارج میں جو اشیاء نظر آتی ہیں وہ دراصل ان حقائق کے عکوس ہیں۔

خارجی وجود تو حقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کو حاصل ہے۔ اور اعیان ثابتہ کو اس حیثیت سے کہ وہ صفت علم ہے، ان کو بھی خارجی وجود اصل ہے۔ ان کے علاوہ اس طرح کا سا خارج میں موجود کوئی اور نہیں ہے۔ مذکورہ بالا امور کی بنا پر صوفیہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی طرح کا کسی کو خارج میں ماننا شرک ہے۔ یہ نہیں کہ وہ عالم کے وجود کو نہیں مانتے بلکہ ذات و صفات کے مقابلہ میں ان کے وجود کو عکس کی حیثیت دیتے ہیں۔

یہ وجود منضبط کیا ہے؟ یہ اللہ تعالی سے صادر ہونے والا سب سے پہلا طور ہے۔ اس کو ایسے خیال کریں جیسے آدمی کے لیے اس کا ذہنی میدان یا اس کی خواب کی دنیا، کہ ان کا صدور آدمی سے ہوتا ہے اور ان کا وجود آدمی کے وجود سے ہوتا ہے لیکن ان کا وجود بھی نہ آدمی کا وجود ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

No Results Found

The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.