(1) مجھے خیال ہوتا ہے“ | ’قطعی‘ تفسیر کا عمدہ نمونہ

Published On September 27, 2025
غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر

غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر

ابو عمار زاہد الراشدی جاوید احمد غامدی صاحب ہمارے محترم اور بزرگ دوست ہیں، صاحب علم ہیں، عربی ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں، وسیع المطالعہ دانشور ہیں، اور قرآن فہمی میں حضرت مولانا حمید الدین رحمہ اللہ تعالیٰ کے مکتب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان دنوں قومی اخبارات میں غامدی...

علماء کے سیاسی کردار پر جناب غامدی کا موقف

علماء کے سیاسی کردار پر جناب غامدی کا موقف

ابو عمار زاہد الراشدی اول- اس بحث کا پس منظر غالباً عید الفطر کے ایام کی بات ہے کہ محترم جاوید احمد غامدی نے پشاور پریس کلب میں جہاد، فتویٰ، زکوٰۃ، ٹیکس اور علماء کے سیاسی کردار کے حوالہ سے اپنے خیالات کا اظہار کیا جو ملک کے جمہور علماء کے موقف اور طرز عمل سے مختلف...

غامدی صاحب کے اصولوں کا ایک تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کے اصولوں کا ایک تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر الشریعہ کے جنوری ۲۰۰۶ کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کے مضمون کے جواب میں غامدی صاحب کی تائید میں لکھی جانے والی دو تحریریں نظر سے گزریں ، جن کے حوالے سے کچھ گزارشات اہل علم کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ جناب طالب محسن صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی اگے سنت کے متعلق رقم طراز ہے کہ " دوم یہ کہ سنت قران کے بعد نہیں   بلکہ قران سے مقدم ہے ۔ اس لیے وہ لازما اس کے حاملین کے اجماع وتواتر ہی سے اخذ کی جائے گی ۔ قران میں اس کے جن احکام کا ذکر ہوا ہے   ان کی تفصیلات بھی اسی اجماع وتواتر پر...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 84)

مولانا واصل واسطی تیسری وجہ اس بنیاد کے غلط ہونے کی یہ ہے   کہ جناب غامدی نے قران مجید کی جن آیات کو اس کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیاہے اس کو تسلیم کرنے کے بعد بھی انسان یہ سمجھتاہے   کہ اس کو جو  ہدایت   دی گئی ہے اور جو " شعور " عطا کیاگیا ہے وہ محض اجمالی " معرفت...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 83)

مولانا واصل واسطی دوسری بات اس خلل کے متعلق یہ ہے کہ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ " شعورِخوب وناخوب کو اللہ تعالی نے انسانی فطرت میں ودیعت کیا ہے اور اسے ان کی فطرت میں رکھا ہے " اس بات تک وہ انسانی فطرت کے براہِ راست مطالعے کے نتیجے میں نہیں پہنچے ۔ نہ ان لوگوں نے براہِ...

جہانگیر حنیف

”مجھے خیال ہوتا ہے“، ایک فقرہ ہے جس کا جو بھی مطلب ہے، اس میں قطعیت نام کی کوئی چیز نہیں۔ یہ ہمارا دعویٰ ہے اور اِس پر ہمیں یقین ہے۔ آپ کوئی ایک دلیل لے آئیں کہ ”مجھے خیال ہوتا ہے“ کا فقرہ کسی بھی طرح کی قطعیت کا حامل ہو سکتا ہے۔ قطعیت تو دور کی بات ہے، یہ یقین کے ادنیٰ مدارج سے بھی کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ خیال کا قطعیت کے ساتھ ویسے ہی کوئی تعلق نہیں بنتا۔ بلکہ خیال کے لفظ کو بالعموم قطعیت کی نفی اور اس سے امتیاز و اختلاف قائم کرنے کے لیے لایا جاتا ہے۔ جب ذہن کسی چیز کی طرف مائل ہو، مگر اس کے حق میں کوئی قطعی دلیل موجود نہ پائے، تو ہم ”خیال“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ ذہن میں ایک تصویر بن رہی ہے، لیکن اس تصویر کی صحت پر قطعی دلیل موجود نہیں۔ اصلاحی صاحب لکھتے ہیں:
وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ‘ ، ’اِسْتِقْسَام‘کے معنی ہیں: حصہ یاقسمت یا تقدیرمعلوم کرنا۔ ’اَزْلاَم‘ جوے یا فال کے تیروں کو کہتے ہیں۔ عرب میں فال کے تیروں کا بھی رواج تھا جن کے ذریعے سے وہ اپنے زعم کے مطابق غیب کے فیصلے معلوم کرتے تھے اور جوے کے تیروں کا بھی رواج تھا جن کے ذریعے سے وہ گوشت یا کسی چیز کے حصے حاصل کرتے تھے۔ ہم سورۂ بقرہ کی تفسیر میں ’خمرومیسر‘کے تحت بیان کر آئے ہیں کہ عرب شراب نوشی کی مجلسیں منعقد کرتے، شراب کے نشے میں جس کا اونٹ چاہتے ذبح کر دیتے، مالک کو منہ مانگے دام دے کر راضی کر لیتے، پھر اُس کے گوشت پر جوا کھیلتے۔ گوشت کی جو ڈھیریاں جیتتے جاتے ،اُن کو بھونتے، کھاتے، کھلاتے اور شرابیں پیتے اور بسا اوقات اِسی شغل بدمستی میں ایسے ایسے جھگڑے کھڑے کر لیتے کہ قبیلے کے قبیلے برسوں کے لیے آپس میں گتھم گتھا ہو جاتے اور سیکڑوں جانیں اِس کی نذر ہو جاتیں — مجھے خیال ہوتا ہے کہ یہاں ’استقسام بالأزلام‘ سے یہی دوسری صورت مراد ہے ۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۴۵۶)
اصلاحی صاحب نے یہ ڈنڈی تفسیر میں ماری ہے اور ترجمہ یوں کیا ہے: ”اور یہ کہ تقسیم کرو تیروں کے ذریعہ سے۔“ (جلد دوم،۔صفحہ 451) غامدی صاحب اصلاحی صاحب کو استاذ امام مانتے ہیں، لیکن ان کے اعتماد میں فراہی اور اصلاحی کا گویا اعتماد بھی شامل ہو جاتا ہے۔ لہذا انھوں نے گوشت کو ترجمہ میں ڈال کر خیال کو قطعیت کا درجہ عطا کردیا ہے۔ یہ بڑے لوگ ہیں۔ ان کے ذہن سے اگر کوئی خیال بھی گزر جائے، تو وہ قطعی ہو جاتا ہے۔ ان کا لفظ لفظ قطعی ہے۔ اس لفظ کا ہر معنی قطعی ہے۔ خیال کی ہر صورت قطعی ہے۔ غامدی صاحب نے وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ‘ کا ترجمہ فرمایا ہے: ”اور یہ بھی کہ تم (ُان کا گوشت) جوے کے تیروں سے تقسیم کرو۔“ مجال ہے کہ غامدی صاحب نے کوئی دلیل دی ہو یا کسی قرینہ کی جانب اشارہ کیا ہو۔ محض مکھی پہ مکھی ماری ہے۔ ترجمہ کرنے بعد انھوں نے اصلاحی صاحب کی مندرجہ بالا تحریر کو نقل فرما دیا ہے۔ اصلاحی صاحب نے علمی دیانت داری سے کام لیتے ہوئے بتا دیا تھا کہ یہ ان کا خیال ہے۔ یہ غامدی صاحب کا خیال ہے یا یقین، کچھ پتا نہیں چلتا۔ زیادہ امکان یقین ہی کا لگتا ہے۔ لیکن آپ تصور کریں کہ قطعی الدلالہ تفاسیر کا کیا حال ہے۔ یہاں کیسے خیالات حیطہ تصور میں داخل ہوتے ہیں اور پھر بغیر کسی دلیل کے قطعی ہو جاتے ہیں۔
آپ غور فرمائیں کہ اصلاحی صاحب ’اِسْتِقْسَام‘ کے معنی ’حصہ یاقسمت یا تقدیر معلوم کرنا‘ کے بیان کرتے ہیں اور نتیجہ گوشت کی تیروں سے تقسیم کا نکالتے ہیں۔ ’اِسْتِقْسَام‘ کے معنی میں تیروں سے تقسیم شامل نہیں، وگرنہ وہ ضرور بتاتے۔ انھوں نے اس ٹکڑے کے لغوی معنی درست بیان کیے ہیں۔ لیکن اُن کی طبیعت اس پر مائل نہیں۔ لہذا وہ پہلے انھیں فال کی تیروں سے جوے کے تیروں کی طرف لے کر آتے ہیں اور پھر جوے کے تیروں سے گوشت کی تقسیم کی طرف۔ گوشت اس فقرہ کا حصہ نہیں۔ یعنی وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ کے جملہ میں گوشت نام کی کوئی چیز نہیں۔ گوشت کی تقسیم کو انھوں نے ما ذبح علی النصب سے تخیل (imagine) کیا ہے۔ اسے تفسیر بالتخیل کہنا زیادہ مناسب محسوس ہوتا ہے۔ یہ تخیل (imagination) کی کوئی پرواز ہے، جو مفسر کو چودہ سو سالوں کی مسافت یک ان میں طہ کروا کر اس وقت میں لے جاتی ہے، جہاں قرآن مجید نازل ہو رہا تھا۔ معاذ اللہ۔ یہ بات غامدی صاحب خود مدرسۂ فراہی کے آئمہ کے بارے میں اپنے لیکچرز میں دہراتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لفظوں کے معانی کی بجائے، اصلاحی صاحب تخیل کی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے قرآن مجید کی آیات کی تفسیر لکھتے ہیں۔ یہ قطعی الدلالہ تفسیر کا بہترین نمونہ یے، جس کے لیے انھوں نے ”مجھے خیال ہوتا ہے“ کے الفاظ کا بہترین استعمال کیا ہے۔ پھر یہ خیال کی نوعیت بھی الگ تھلگ ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ سے اس خیال کا کوئی تعلق ہے اور نہ سیاقِ کلام سے۔ اصلاحی و غامدی صاحبان نے اس آیت کو قرآن مجید کے الفاظ ”ما ذبح علی النصب“ کے ساتھ جوڑا ہے۔ یعنی ان جانوروں کے گوشت کو تیروں سے تقسیم کرنا فسق ہے، جنہیں نُصَب پر ذبح کیا گیا ہو۔ پہلی بات یہ ہے کہ جو گوشت پہلے ہی حرام قرار دے دیا گیا یے، وہ تیروں سے تقسیم ہو یا کسی دوسری چیز سے، اس کی حرمت پر کیا فرق پڑتا ہے۔ بالفاظِ دیگر، جوے کے تیروں سے کسی ایسے گوشت کی تقسیم متاثر ہوگی، جو حلال ہو۔ یعنی اس کے فسق کو واضح کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ناکہ وہ گوشت جو پہلے ہی حرام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاحی صاحب صراحت سے اس آیت کو ما ذبح علی النصب سے نہیں جوڑتے۔ بلکہ وہ ایسی تصویر کَشی کرتے ہیں، جس میں نُصَب وغیرہ کا ذکر ہی نہیں۔ آپ ان کے پیرے کو دوبارہ دیکھیں، انھوں نے ’جس کا اونٹ چاہتے، ذبح کرتے اور اُسے منہ مانگے پیسہ دیتے وغیرہ‘ لکھا ہے۔ انھوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ جانور جنہیں تھان یا استھان پر ذبح کیا گیا ہو، اس کے گوشت کو تیروں سے تقسیم کرنا فسق ہے۔ تھان اور استھان پر ذبح کیے گئے جانوروں کا گوشت قرآن مجید نے پہلے ہی حرام قرار دے دیا ہے۔ اب وہ کیسے بھی تقسیم ہو یا کھایا جائے، وہ حرام ہے۔ غامدی صاحب چونکہ زیادہ قطعی بات کرنے کے دعویدار ہیں، لہذا انھوں نے ”ان کا گوشت“ کا اپنے ترجمہ میں اضافہ کیا ہے۔ جس سے صراحت کے ساتھ متعین ہوگیا ہے کہ گوشت کس کا ہے۔ ظاہر ہے غامدی صاحب کا یہ ترجمہ قرآن مجید کے لفظوں سے مغایرت رکھتا ہے اور مدعائے کلام سے بھی اس کا کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ قرآن مجید حرام کردہ چیز کی حرمت کو دوبارہ اگلے ہی لمحہ نہیں بتائے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ استاد شاگرد ایک عجیب مخمصہ کا شکار ہیں۔ اصلاحی صاحب تعیین سے بچتے ہیں، تو آیت کا معنی بالکل آیت کے پورے موضوع اور اس کے الفاظ سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ یعنی وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ کے الفاظ میں کس چیز کو تقسیم کرنا ہے، اس کا کوئی ذکر نہیں۔ اصلاحی صاحب کو ایک کہانی کی ضرورت ہے، جو وہ جوے کے تیروں سے تیار کرتے ہیں۔ اس کہانی کا قرآن مجید کے سیاق میں کوئی حوالہ موجود ہے اور نہ کوئی قرینہ۔ خود اصلاحی صاحب نے کسی ایسے قرینہ کا ذکر نہیں کیا۔ البتہ اصلاحی صاحب نے اپنی کہانی میں حلال جانوروں کے گوشت کی جوے کے تیروں سے تقسیم سے اس گوشت کے حرام ہونے کی بات کی ہے۔ اس طرح انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ حلال جانور جس کی قیمت بھی ادا کردی گئی ہو، اس کے گوشت کو اگر جوے کے تیروں سے تقسیم کیا جائے، تو وہ گوشت بھی حرام ہے۔ چناچہ اصلاحی صاحب یہ بتانے میں کامیاب ہیں کہ ’ما ذبح علی النصب‘ میں ایک حرمت کا بیان ہے اور وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ کے الفاظ میں ایک دوسری نوعیت کی حرمت ہے۔ حلال جانور جن کو حلال طریقہ پر ذبح کیا گیا ہو، مگر ان کا گوشت جوے کے تیروں سے تقسیم ہو، تو وہ حلال جانور بھی حرام ہو جاتے ہیں۔ لہذا، نتیجہ یہ نکلا کہ تھان پر ذبح کیے گئے جانور حرام ہیں اور ان جانوروں کا گوشت بھی حرام ہے، جسے جوے کے تیروں سے تقسیم کیا جائے۔ اصلاحی صاحب معنوی طور پر consistent ہیں، اگرچہ ان کی کہانی unfounded ہے۔ اس کے برعکس، غامدی صاحب وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ کے الفاظ کو متنِ قرآن سے جوڑتے ہیں۔ غامدی صاحب کو معلوم ہے کہ اونٹوں کو ذبح کرکے ان کے گوشت کو جوے کے تیروں سے تقسیم کرنے کا متنِ قرآن میں کوئی قرینہ نہیں۔ لہذا وہ اس ٹکڑے کو ’ما ذبح علی النصب‘ سے جوڑتے ہیں۔ لیکن وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ’ما ذبح علی النصب‘ کو قرآن مجید پہلے ہی حرام قرار دے چکا ہے، اب اس کے گوشت کو تیروں سے تقسیم کیا جائے یا کچھ اور کیا جائے، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ بہرحال یہ دونوں حضرات قرآن مجید کے الفاظ کو اپنی منشاء کے معانی پہنانا چاہتے ہیں، لہذا وہ لفظوں کے درست معانی جاننے کے باوجود متن کو ایسے معانی کی طرف پھیرتے ہیں جو شاذ ہیں اور سیاق و سباق، نظمِ کلام اور قرآنی الفاظ سے ادنیٰ مناسبت بھی نہیں رکھتے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…