غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 10

Published On August 24, 2025
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 64)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 64)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی کے ،، استادامام ،، مولانا اصلاحی انہی آیاتِ سورہِ انعام کے متعلق رقم طراز ہیں کہ ،، اوپر کی آیات میں حضرت ابراہیم کی دعوت کے ساتھ ان کے روحانی وایمانی مدارج کابیان ہوا ۔اب یہ بتایا جارہا ہے کہ اس دنیامیں بھی اللہ نے ان کو اوران کی دعوت کو...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 64)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 63)

مولانا واصل واسطی اب چند اور عبارتیں بھی سورتِ نحل ( 123) کے متعلق دیکھتے ہیں ۔ محمدعلی لاہوری لکھتے ہیں ،، ملتِ ابراہیمی پر چلنے کا ارشاد  یعنی وہی کام کرو جو ابراہیم نے کیا۔ مطلب یہ ہے کہ تم بھی شرک کی بیخ کنی کرو  جس طرح حضرت ابراہیم نے کی ۔ کیوں کہ ملتِ ابراہیمی...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 64)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 62)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے جیساکہ ہم نے اس کی طرف پہلے بارہا اشارات کیے ہیں ۔انہوں نے چند سالوں سے ایک نیا مسئلہ  ،، سنتِ ابراہیمی ،، یا ،، ملتِ ابراہیمی ،، کا کھڑاکیا ہے ۔ اس نئے دین میں صرف 26 سنن ہیں۔ مگر یہ سنن قران کی طرح قطعیت کے ساتھ ثابت ہیں ۔ دونوں کے...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 64)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 61)

مولانا واصل واسطی کل ہم نےایک بات لکھی ہے کہ جناب غامدی نے قران کی آیت پرہاتھ صاف کیاہے۔ تو ہزار ممکن ہے کہ ان کے چاہنے والے اس بات کو ان کی تحقیر اور بے عزتی پر محمول کریں ۔اس لیے ہم آج کی اس محفل میں اس حوالے سے کچھ مزید باتیں کرنا عرض چاہ رہے ہیں ۔ ہم نے جناب غامدی...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 64)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 60)

مولانا واصل واسطی دوسری بات جو جناب غامدی کی اس آیت کے لانے اور ذکرکرنے سے پیشِ نظر تھی ۔وہ یہ تھی   کہ جناب نے سنت کے حوالے سے ایک اصول یہ بنایا ہے   کہ اس کی ابتدا پیغمبرکی ذات سے ہونی چاہیے قران سے نہیں۔ جیسا کہ ،، تدبرِسنت ،، کے تیسرے اصول  کے تحت ( میزان ص 59)...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 64)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 59)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی اگے اسی ملت یاسنتِ ابراہیمی کے سلسلہ میں لکھتے ہیں کہ ،، زکوة ان کے ہاں بالکل اسی طرح ایک متعین حق تھی جس طرح اب متعین ہے ( میزان ص 45) اس بات کی ثبوت میں سورة المعارج کی آیت 27 ،، وفی اموالھم حق معلوم للسائل والمحروم ،، کا حوالہ دیا ہے ۔...

مولانا عبد الحق بشیر

 کیا مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کا حق ہے؟

عمار ناصر صاحب نے ایک اور شوشہ چھوڑا ہوا ہے۔ (کہ مسجد اقصیٰ پر یہود کا اصولی حق بر قرار ہے۔ الشریعہ اشاعت خاص: ۱۷۹] اور یہی نظریہ غامدی صاحب کا ہے۔ مقامات: ۱۹۵))

آج تک امت مسلمہ اس بات پر متفق رہی ہے کہ مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کا حق ہے۔ جو اللہ تعالی نے اُن کو دیا ہے۔ آپ نے حضرت مولانا نواز بلوچ صاحب دامت فیو ضہم سے پڑھا بھی ہوگا: “ولقد كتبنا في الزبور من بعد الذكر ان الارض يرثها من عبادى الصالحون ۔ کہ ہم اس زمین کا وارث اپنے نیک بندوں کو بتائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سی زمین ہے جس زمین کا وارث اللہ رب العزت نیک بندوں کو بنانے کا وعدہ کر رہے ہیں؟ یہاں ہمیں دو چیزوں کا تعین کرنا ہے۔ پہلی چیز یہی کہ وہ کون سی زمین ہے؟ تو اُس

زمین کے بارے میں خود غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے کہ: اس سے مراد وہ زمین ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے پاس تھی۔ اور فلسطین اس میں شامل ہے تو معلوم ہوا کہ جو زمین ابراہیم علیہ السلام کے پاس تھی، اللہ تعالی اس کے بارے میں وعدہ کر رہے ہیں کہ اس زمین کا وارث میں نیک بندوں کو بناؤں گا۔

دوسری بات) آب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وراثت کس کو کہتے ہیں؟ اور نیک بندے کون سے ہیں؟ ( آپ حضرات جانتے ہیں کہ وراثت صرف وارث کی ہوتی ہے۔ کیوں مولانا! باپ میرا مرا ہے (تو کیا خیال ہے) وراثت سب کی ہوگی ؟ نہیں!) وراثت کس کی ہے؟ وارث کی۔ اور عبادی الصالحون” کی تفسیر میں آپ نے پڑھ لیا ہوگا کہ پوری اُمت کا اجماع ہے کہ اس سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امت مسلمہ ہے۔

جب اللہ کا قرآن یہ کہتا ہے کہ: ہم نے اس زمین کا وارث امت مسلمہ کو بنایا ہے تو پھر یہ دعوی کرنا کہ اس زمین پر یہودیوں کا بھی حق ہے، اس زمین پر عیسائیوں کا بھی حق ہے۔ ( کہاں کی مسلمانی ہے؟) میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ : آج کے اس دور میں جب اس خطے کے اندر لڑائی ہو رہی ہے، وہ کہتے ہیں: مسجد اقصیٰ ہماری ہے، ہم کہتے ہیں مسجد اقصی ہماری ہے۔ لڑائی ہی اسی بنیاد ہے، (اس صورت حال میں) یہ دعوی کرنا کہ (مسجد اقصی پر) یہود کا حق ہے۔ کیا یہ مسلمانوں کے موقف کو کمزور کرنا نہیں ہے؟ کیا یہ مسلمانوں کے موقف کو کمزور کرنے کے مترادف نہیں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ  اُن کا یہ دعوی کرنا کہ وہاں یہودیت کا بھی حق ہے، یہ یہودیوں کے موقف کو مضبوط کرتا ہے۔

جاری

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…