غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 7

Published On August 24, 2025
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 44)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 44)

مولانا واصل واسطی ہم یہاں دوباتیں کریں گے ۔جناب غامدی کی اوپر مذکور بات سے پہلے ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے   جو رضاعت کے مسئلے سے ہی متعلق ہے وہ پہلی بات ہے اور یہ ہے کہ جناب غامدی اور ان کے ،، استادامام ،، کو چونکہ رضاعت کے مسئلے میں امام ابوحنیفہ کا مسلک منظور...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 44)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 43)

مولانا واصل واسطی  پہلی بات اس مورد میں یہ ہے کہ جناب غامدی نے اوپر اس بات پر سورتِ النساء کی آیت (23) سے استدلال کیاہے  کہ قران کی اس آیت کی روسے رضاعت سے بھی وہی حرمت ثابت ہوتی ہیں   جو نسب سے ہوتی ہیں   اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیتِ سورتِ النساء سے استنباط...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 44)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 42)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی آگےان محذوفات کے مقامات اورمواضع کا تعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ،، مقسم علیہ ، جوابِ شرط ، جملہ معللہ کے معطوف علیہ اورتقابل کے اسلوب میں جملے کے بعض اجزا کا حذف اس کی عام مثالیں ہیں ( میزان ص 37 ) ان مواضع اورمقامات میں اختلاف کرنا ہمارے...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 44)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 41)

مولانا واصل واسطی دوسری بات اس سلسلے میں یہ ہے  کہ جناب غامدی نے یہاں ،، بیانِ فطرت ،، کو آحادیث تک ہی محدود کرلیاہے  جیساکہ اس کی پہلی تحریر  سے معلوم ہوتاہے ۔ایک بار پھر اس عبارت کا یہ حصہ دیکھ لیتے ہیں ۔ ان کا فرمان ہے کہ ،، لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نےاسے بیانِ...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 44)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 40)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے اسی مسئلے پرآگے لکھا ہے کہ بعض روایتوں میں بیان ہوا ہے  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں ، چنگال والے پرندوں ، اورپالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایاہے ۔ اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ یہ اسی فطرت کا بیان ہے   جس کا علم انسان...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 44)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 39)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی ،،طیبات اورخبائث ،، کی اس مبحث کو بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ،، جانوروں کی حلت وحرمت میں شریعت کا موضوع اصلا یہی چارہی چیزیں ہیں ۔چنانچہ قرآن نے بعض جگہ ،، قل لااجد فی ما اوحی الیّ ،، اور بعض جگہ ،، انما ،، کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ...

مولانا عبد الحق بشیر

ساتواں اختلاف: کیا شاتم رسول اور مرتد کے لیے شریعت میں قتل کی سزا نہیں؟

ہمارا غامدی صاحب کے ساتھ ساتواں اختلاف کیا ہے؟ غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ: (موت کی سزا قرآن مجید کی رو سے قتل نفس اور فساد فی الارض کے سوا کسی جرم میں بھی نہیں دی جاسکتی ۔ برہان : ۱۴۳] یعنی ( محاربہ اور قتل، باہمی جنگ و جدال اور قتل، ان دو جرموں کے علاوہ اسلامی ریاست کے اندر کسی جرم کی سزا نہیں ہے۔ صرف دو جرم ہیں جن کی سزا قتل ہے۔ قتل کے بدلے قتل اور محاربہ مطلب سمجھیں ہیں آپ؟ کہ توہین رسالت کی سزا قتل نہیں ہے۔ ارتداد کی سزا بھی قتل نہیں ہے۔ جو آدمی مرتد ہو جائے اسلامی ریاست میں اس کی سزا بھی قتل نہیں ہے۔ یہ ہمارا غامدی صاحب کے ساتھ ساتواں اختلاف ہے۔

آٹھواں اختلاف کیا رجم کی سزا صرف عادی مجرم کے لیے ہے؟

اور آٹھواں اختلاف اپنے سینوں پہ ذرا پتھر رکھ کے، جذبات میں آئے بغیر ذرا توجہ سے سننا۔ اسلام کی ایک سزا ہے، شادی شدہ زانی کے لیے، رجم ! انہیں پتھر مار مار کے مار دو۔ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ: یہ سزا محض زنا کی وجہ سے نہیں دی جاسکتی، بلکہ فساد فی الارض کی وجہ سے صرف عادی مجرم کو دی جاسکتی ہے۔ اور چونکہ حضور ﷺ نے بھی رجم کی سزادی ہے، خلفائے راشدین نے بھی دی ہے۔ (اس لیے) غامدی صاحب اور ان کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے اپنا دعوی ثابت کرنے کے لیے اُن  صحابہ کرام کو عادی مجرم اور اور فساد فی الارض کا مرتکب قرار دے دیا ہے جن پر یہ سزا جاری ہوئی۔ العیاذ باللہ تعالی ثم العیاذ باللہ تعالی۔ بلکہ غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے اپنی کتاب ” تدبر قرآن میں اور غامدی صاحب نے اپنی تحریرات میں : حضرت ماعز ابن مالک اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ جن پر سزائے رجم جاری ہوئی تھی ان کے بارے میں (انتہائی سنگین اور گستاخی پرمبنی ) الفاظ استعمال کیے ہیں کہ: وہ عادی مجرم تھا، پیشہ ور مجرم تھا، غنڈا تھا، بدمعاش تھا، اوباش تھا۔ اس کی عادت تھی عورتوں کے پیچھے بھاگنا، عورتوں کے پیچھے پھرنا۔

کیا حضرت ما عز رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابی نہیں تھے؟

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ماعز ابن مالک اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ صحابی تھے یا نہیں تھے؟ دو باتوں میں سے ایک بات کا تو ہمیں انکار کرنا پڑے گا۔ یا تو اُن کی صحابیت کا انکار کرنا پڑے گا کہ وہ صحابی نہیں تھے۔ یا پھر اُن کے عادی مجرم ہونے کا انکار کرنا پڑے گا۔ یعنی اگر وہ صحابی تھے تو پھر صحابی عادی مجرم نہیں ہو سکتا۔ پہلی بات: کہ وہ صحابی تھے یا نہیں؟ تو اس پر سب کا اتفاق کہ وہ یقینا صحابی رسول تھے۔ اُن کےصحابی ہونے کا انکار تو وہ اصلاحی اور غامدی صاحبان  بھی نہیں کرتے۔ (ان کو) غنڈہ کہتے ہیں، بدمعاش کہتے ہیں، اوباش کہتے ہیں، پیشہ ور مجرم کہتے ہیں، عادی مجرم کہتے ہیں، یہ سارے الزام لگاتے ہیں لیکن صحابی ہونے کا انکار نہیں کرتے۔ اگر صحابی ہیں تو پوری اُمت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ: الصَّحَابَةُ كُلُهُمْ عُدول . ہمارا ایمان ہے کہ صحابی محفوظ ہے، نبی معصوم ہے۔

جاری

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…