انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

Published On November 24, 2024
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 37)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 37)

مولانا واصل واسطی دوسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ  جناب غامدی صاحب  اپنی  باتیں اس طرح پیش کرتے ہیں  جیسے وہ دنیا کے مسلمہ حقائق ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ ،، انسانوں کی عادات کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ان کی بڑی تعداد اس معاملے   یعنی طیبات اور خبائث کے پہچاننے کے معاملے ،،...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 37)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 36)

مولانا واصل واسطی جمہورامت اس بات پر متفق ہیں  کہ مذکورہ تحریر میں درج  قرانی آیت مخصوص بالحدیث ہے۔  حج میں عرفہ اور مزدلفہ کے مقامات میں جمع بین الصلواتین ثابت ہے ، جمع تقدیم بھی ثابت ہے اورجمع تاخیر بھی ۔ ہاں اس میں بحث بہرحال موجود ہے کہ یہ سنت ہے یا مستحب ہے یا...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 37)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 35)

مولانا واصل واسطی اب ان مذکورہ سوالات کے بعد ایک اور بات کی طرف ہم دوستوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں ۔ اس کےبعد ہم اس دوسرے مسئلے کی طرف متوجہ ہونگے  جو جناب غامدی نے اس ،، قاعدے ،، کی مدد سے حل کیا ہے ۔ وہ بات یہ ہے کہ ہم جناب غامدی سے اس بات میں ( کچھ وقت کےلیے )...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 37)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 34)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے اگے کچھ مباحث بیان کیے ہیں جن کے بارے میں ہم اپنی گذارشات احباب کے سامنے پیش کرچکے ہیں ۔آگے انھوں نے ،، حدیث اور قران ،، کے زیرِ عنوان ان حدیثی مسائل پر لکھا ہے  جن کے متعلق ھہارے عام علماء کرام کا تصور یہ ہے کہ ان سے قران کے نصوص منسوخ...

از روئے قرآن بیان نسخ: احکام زنا کی تدریج کی روشنی میں غامدی صاحب کے تصور بیان کا جائزہ

از روئے قرآن بیان نسخ: احکام زنا کی تدریج کی روشنی میں غامدی صاحب کے تصور بیان کا جائزہ

ڈاکٹر زاہد مغل   مشرف بیگ اشرف جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے ہاں "تبیین" کی بحث بہت کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور آپ کی رائے میں بیان وہ امر ہے جو لفظ یا صیغہ نیز سیاق کلام وغیرہ سے سمجھا جا سکتا ہو وگرنہ وہ نسخ یا ترمیم کہلائے گا جو کسی صورت بیان نہیں۔ اس کے لیے آپ کا...

لفظ تبیین میں “ترمیم و تبدیلی” کا مفہوم شامل ہے: قرآن سے دو شہادتیں

لفظ تبیین میں “ترمیم و تبدیلی” کا مفہوم شامل ہے: قرآن سے دو شہادتیں

ڈاکٹر زاہد مغل ایک تحریر میں قرآن مجید کے متعدد نظائر سے یہ ثابت کیا گیا تھا کہ قرآن کے محاورے کی رو سے نسخ، اضافہ، تخصیص و تقیید وغیرہ تبیین کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اس کے لئے ہم نے قرآن مجید میں مذکور احکام سے استشہاد کیا تھا۔ یہاں ہم دو مثالوں سے یہ واضح کرتے...

محمد خزیمہ الظاہری

دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں “کتاب الاعتصام بالکتاب و السنة” کے تحت دو صحیح احادیث پر یہ عنوان قائم کیا ہے کہ :

باب الحجة على من قال : إن أحكام النبى صلى الله عليه و سلم کانت ظاهرة و ما كان يغيب بعضهم من مشاهد النبى صلى الله عليه و سلم و أمور الاسلام

اس عنوان کا مفہوم و مدعا یہ ہے کہ : اس شخص کے رد پر دلیل کا بیان جو کہتا پھرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے (دین سے متعلق) دئے گئے احکامات سب پر واضح تھے اور دین کے معاملے میں نبی علیہ السلام کی تعلیمات سے تمام لوگ واقف ہوتے تھے۔

یہاں امام بخاری کا موقف صاف صاف واضح ہو گیا ہے کہ انہوں نے ان لوگوں کی تردید کی ہے جنہوں نے تواتر کے نام پر احادیث سے منہ موڑا ہے۔

اس مقام پر بخاری شریف کے بلا مبالغہ ان درجنوں شارحین نے امام بخاری رحمه الله کی تائید فرمائی ہے جو چاروں میں سے کسی نا کسی فقہی مذھب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور درج ذیل باتوں کی وضاحت کی ہے کہ :

اول : دین کو قبول کرنے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کا موقف ہے۔

دوم : یہاں امام بخاری کا مقصد انہی لوگوں پر تنقید ہے۔

سوم : امام بخاری رحمه الله کا یہ موقف بالکل درست ہے اور دین کی کوئی بات قبول کرنے کے لئے تواتر کی شرط لگانا ضروری نہیں ہے۔

_ ان شارحین میں چند ایک نام ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں۔

اول : امام ابن الملقن،التوضيح لشرح الجامع الصحيح (٣٣/١٤٠)

دوم : امام بدر الدين عينى،عمدة القارى فى شرح صحيح البخارى (٢٢/٤٩٣)

سوم : امام ابن بطال مالکی،شرح صحيح البخارى (١٠/٣٨٤)

چہارم : امام بدر الدين زركشى،التنقيح لالفاظ الجامع الصحيح (٣/٨٦٩)

پنجم : امام ابن المنيّر،المتوارى على ابواب البخارى (ص ٤١٦)

ششم : امام بدر الدين دمامينى،مصابيح الجامع الصحيح (١٠/١٦٥)

ہفتم : امام شمس الدين برماوى،اللامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح (١٧/٢٨٥)

ہشتم : امام شمس الدين كرمانى،الكواكب الدرارى (٢٥/٦٣)

نہم : امام محمد فضيل مالكى،الفجر الساطع على صحيح البخارى (١٦/١٤٨)

دہم : امام احمد بن اسماعيل كورانى،الكوثر الجارى إلى رياض احاديث البخارى (١١/٣٩٦)

ان اہل علم میں کوئی بھی ظاھری نہیں ہے اور انکا تعلق مذاھب اربعہ میں سے کسی نا کسی فقہی مذھب سے ہے۔ لہذا اس تفصیل سے ہمارے دور کے ان حدیث بیزار لوگوں کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے جنکا کہنا ہے کہ تواتر کی بجائے اخبار آحاد کو کافی شافی سمجھنا صرف اہل ظاھر کا طریقہ ہے۔

 

 

 

 

محمد خزیمہ الظاہری

دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو نقل کرنے اور لوگوں تک پہنچانے کے لئے روایتِ حدیث کا مستقل فن وجود میں آیا ورنہ اس علم کی کوئی ضرورت نا تھی.

البتہ بہت سے لوگ ایک ناقص سوال کرتے رہتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیات کی طرح صحیح احادیث کی تعداد بھی متعین کیوں نہیں ہے اور اگر حدیث عین دین ہے تو اس میں اختلاف کیوں ہے؟

 ایک ہی حدیث کو بسا اوقات ایک محدث صحیح اور دوسرا ضعیف کہ رہا ہوتا ہے.. گویا دین میں ہی اختلاف ہے کہ فلاں چیز دین ہے یا نہیں؟

اس اعتراض کی حقیقت یہ ہے کہ :

اوّلا : دین کی تمام بنیادیں قرآن مجید اور مسلّمہ طور پر صحیح سمجھی جانے والی احادیث میں صاف صاف مقرر ہیں.. اور احادیث کی زیادہ تعداد ایسی ہے جنکی صحت یا ضعف بھی قابلِ اطمینان حد تک واضح ہے۔

ثانیاً : جن احادیث کی صحت میں اختلاف ہے،انکا ایک حصہ ایسا ہے جس میں اختلاف واضح طور پر شذوذ کا نتیجہ ہے.. اور اختلاف کرنے والے اہل علم حدیث کے نقّاد ائمہ میں شامل نہیں ہیں۔

ثالثاً : صحت و ضعف کے لحاظ سے مختلف فیہ روایات کا ایک حصہ براہ راست قرآن مجید یا صحیح احادیث سے تائید شدہ ہے اور ضعف کی نوعیت نہایت خفیف ہے.. لہذا یہ روایات ویسے ہی صحیح نصوص اور دیگر قرائن سے تقویت پا کر مکمّل طور پر مستند ہو جاتی ہیں حتیٰ کہ ایسی روایات کو ضعیف کہنے والے علماء بھی انکے متن کو تسلیم کرتے ہیں۔

رابعاً : ان تمام چیزوں کے باوجود اگر احادیث کی ایک تعداد کے بارے میں یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ ان کی صحت میں اختلاف کا معاملہ حل نہیں ہو رہا اور متن میں موجود حکم یا نصیحت کے دینی ھدایت میں شامل ہونے یا نا ہونے کا مسئلہ اختلاف کی بھینٹ چڑھ رہا ہے تو بھی یہ معاملہ اس اختلاف کی وجہ سے دین کی حیثیت کو مجروح نہیں کرتا۔

اسکی وجہ یہ ہے کہ اسکی نوعیت بالکل وہی ہے جو آیات و احادیث کے فہم کی نوعیت ہے کہ بہت سی نصوص کی تعبیر میں اختلاف ہو جاتا ہے مگر وہ آیات و احادیث دین کا جزو رہتی ہیں اور بہت سے مسائل کے جواز و عدم جواز میں اختلاف ہو جاتا ہے لیکن وہ مسائل دینی احکامات کی فہرست میں شامل رہتے ہیں۔

فلہذا احادیث کی صحت و ضعف میں اختلاف کی نشاندہی کر کے حدیث کی اہمیت گھٹانا اسی طرح ہے جیسے کوئی شخص قرآن مجید کی آیات کے معنیٰ و مفہوم میں اختلاف کی نشاندہی کر کے قرآن مجید کے دین کی بنیاد ہونے کی حیثیت کا انکار شروع کر دے۔

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…