بیان و سورۃ نحل آیت : 44 ، ابن عاشور اور غامدی صاحب – قسط اول

Published On September 27, 2025
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 82)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 82)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی اگے لکھتے ہیں " قران کا یہی پس منظر ہے جس کی رعایت سے یہ چندباتیں اس کی شرح و تفصیل میں بطورِاصول ماننی چاہیئں (1) اول یہ کہ پورا دین خوب وناخوب کے شعور پر مبنی ان حقائق سے مل کر مکمل ہوتاہے جوانسانی فطرت میں روزِاول سے ودیعت ہیں ۔اور...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 82)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 81)

مولانا واصل واسطی رسولوں کے اتمامِ حجت کے خود ساختہ قاعدے کے متعلق ہم نے ان حضرات کے چاراصولوں کا تجزیہ گذشتہ مباحث میں کرکے دکھایا ہے کہ ان چار باتوں سے اس مدعا کا اثبات قطعا نہیں ہوتا ۔ آج اس سلسلے کی آخری اصول کے بابت ہم بات کرنا چاہتے ہیں ۔ اس بات کو ہم تین شقوں...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 82)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 80)

مولانا واصل واسطی اس مذکورہ بالا مسئلہ میں جناب غامدی نے چند اور باتیں بھی بطورِ اصول لکھی ہیں ۔ مگر ان میں سے بھی کوئی بات اوراصول بھی اپنے مدعا کامثبت نہیں ہے۔ جناب کی ایک عبارت کاخلاصہ یہ ہے  کہ جب کوئی نبی علیہ السلام اپنی قوم پرحجت پوری کرتا ہے   تو اس قوم پر پھر...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 82)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 79)

مولانا واصل واسطی اب ہم ان حضرات کے  اس دوسرےاصول کا جائزہ لیتے ہیں کہ اہلِ مکہ پرعذابِ الہی کانزول نبی صلی اللی علیہ وسلم اورصحابہ کے ہاتھوں نازل ہو تھا ۔ اور کیا واقعی اہلِ مکہ کے متعلق شرع میں یہ حکم تھا  کہ ان کے بچنے کے اب فقط دوہی طریقے ممکن ہیں  کہ یاتو وہ...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 82)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 78)

مولانا واصل واسطی اس بات کی معمولی تفصیل ہم یہاں کرتے ہیں تاکہ مولانا مودودی سے عقیدت رکھنے والے لوگ ہماری اس بات سے دکھی نہ ہوں ۔  یہ تو معلوم ہے کہ سیدنا یونس علیہ السلام رسولوں میں سے تھے ۔ اللہ تعالی نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ "وان یونس لمن المرسلین اذابق الی...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 82)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 77)

مولانا واصل واسطی اس قسط میں ہم" اتمامِ حجت "کے اس قانون کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن پہلے جناب غامدی صاحب  کے عبارت کو دوبارہ دیکھنا ضروری ہے ۔ جناب غامدی لکھتے ہیں " یہ آخری مرحلہ ہے اس میں اسمان کی عدالت زمیں پر قائم ہوتی ہے ۔ خدا کی دینونت کا ظہور ہوتا ہے اور...

ڈاکٹر زاہد مغل ، مشرف بیگ اشرف

قرآن و سنت کے مابین باہمی ربط کے ضمن میں بیان کی بحث کلیدی اہمیت کی حامل ہے اور جناب غامدی صاحب نے اس حوالے سے یہ موقف اپنایا ہے کہ بیان کے لغوی طور پر دو معنی ہیں جو کسی مشترک لفظ کے دو معانی کی طرح بیک وقت مراد نہیں لئے جاسکتے:
1) اظہار الشيء: یعنی کسی شے کو ظاہر کرنا یا اس کا بعینہ ابلاغ کرنا
2) اظہار ما فی الشيء: اس موجود شے کی شرح و وضاحت کرنا ہے۔ غامدی صاحب کا “شرح و وضاحت” کا تصور بھی منفرد ہے جس میں وہ سابقہ کلام کا بیان تفسیر، بیان تخصیص و تقیید اور بیان نسخ شامل نہیں کرتے جیسا کہ اصول فقہ کے ماہرین کرتے ہیں۔ ان کے ہاں اس میں سابقہ کلام کے صرف ایسے اطلاقات شامل ہوتے ہیں جو کلام کی پیدائش کے وقت ہی سے اس میں لغوی و عقلی طور پر مضمر ہوتے ہیں اور ایک مجتہد متکلم کی مراجعت کے بغیر انہیں جان سکتا ہے۔ غامدی صاحب کے نظام فکر میں احادیث (جنہیں وہ اخبار احاد کہتے ہیں) میں مذکور توضیحات کا دائرہ صرف یہی احکام ہیں جس کے لیے وہ “بیان فرع” کی اصطلاح بھی برتتے ہیں۔ ہم نے ان کے تصور “بیان شرح” پر جو غور و خوض کیا اور ان کی فقہی جزئیات کا تجزیہ کیا، اس کے مطابق علمی اصطلاحات کے رو سے بیان شرح کے اس تصور میں صرف تین امور ہونے چاہیئں:
الف) تخریج مناط (عقلی استنباط علت)
ب) تحقیق مناط (علت یا معنی کا انطباق)
ج) کسی محتمل الوجوہ حکم کے اطلاق کی ترجیح جو غیر وجوبی ہوتی ہے۔
ان کے علاوہ ایک اور صورت “بیان فطرت” کی بھی ہے لیکن وہ قرآن سے متعلق نہیں۔ قرآن کے حوالے سے غامدی صاحب کے مطابق نبیﷺ کے فرض منصبی میں قرآن کو بعینہ پہنچانا تھا (اس کے علاوہ وہ ایک خاص مفہوم کی سنت پہنچانے کو بھی لازمی سمجھتے ہیں)، اور قرآن کی ان کے مفہوم والی شرح و وضاحت اس فرض منصبی میں شامل نہیں، اس کے برعکس اصولیین کی علمی روایت میں قرآن کی شرح بمعنی بیان تفسیر، تخصیص، تقیید و نسخ بھی نبیﷺ کا فرض منصبی تسلیم کی گئی ہے (البتہ بعض شوافع بیان نسخ کے قائل نہیں رہے)۔ اس بحث میں سورۃ النحل آیت 44 کلیدی اہمیت کی حامل رہی ہے:
وَأَنزَلۡنَآ إِلَيۡكَ ٱلذِّكۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيۡهِمۡ وَلَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُونَ (۴۴)
اس آیت میں چونکہ “تبيين ما نزل إليهم” کو نبی کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے، اس لئے غامدی صاحب نے بھی اپنے تصور بیان پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے اس آیت کی ایسی توجیہ کی جو ان کے نظریہ بیان سے ہم آہنگ ہو۔ آیت کے حوالے سے ان کا موقف یہ ہے کہ یہاں “تبيين ما نزل إليهم” سے مراد قرآن کو “بلا کم وکاست” پہنچانا ہے نہ کہ اس کی شرح و وضاحت، یعنی یہاں بیان پہلے (اظہار الشیئ کے) معنی میں آیا ہے۔ اس اعتبار سے آیت کا مفہوم یہ بنا کہ “(اے نبی جی) ہم نے یہ یاد دہانی آپ کی طرف اِس لیے اتاری ہے کہ آپ اسے بے کم و کاست ان لوگوں تک پہنچا دیں تاکہ اُس کی روشنی میں اُن حقائق کو سمجھ سکیں جن کو سمجھانا خدا کے پیش نظر ہے”۔ اس موقف کی تائید میں ان کا کہنا ہے کہ ہماری تفسیری روایت نے بھی اس آیت کے دو معنی لیے ہیں اور ان کے طے کردہ دوگانہ معانی اس علمی روایت کی صدائے بازگشت ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے بعض مفسرین (علامہ طبری (م 310 ھ)، علامہ زمخشری (م 535 ھ)، امام رازی (م 606 ھ) اور علامہ ابن کثیر (م 774 ھ)) کو نمونے کے طور پر پیش کیا ہے تاہم ان کا اصل تکیہ تیونس کے مشہور مالکی عالم علامہ ابن عاشور (م 1393 ھ / 1973 ء) پر ہے جنہوں نے ان کے مطابق وضوح کے ساتھ اس آیت کے تحت ان دو معانی کو لکھا جس کے یہ قائل ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن عاشور کی تفسیر “التحرير والتنوير” میں مذکور اس آیت کی دو توجیہات کو غامدی صاحب نے اپنے وضع کردہ بیان کے دوگانہ معنی سے مربوط قرار دیا اور اس سے قائم ہونے والے تاثر کو بنیاد بنا کر انہوں نے قدیم مفسرین کے ہاں بھی بیان کے اپنے وضع کردہ دو معنی کو پڑھنا شروع کردیا۔
اس تحریر میں ہم علامہ ابن عاشور کے کلام کا تفصیلی تجزیہ پیش کر کے یہ واضح کریں گے کہ ان کی دوگانہ توجیہات اور غامدی صاحب کے وضع کردہ دوگانہ معنی دو الگ سمت میں کھڑے ہیں اور حقیقت میں یہ توجیہات امت میں پہلے سے چلے آتے اس اختلاف کی بازگشت ہیں جو “قرآن وسنت کے باہمی نسخ” کے حوالے سے ہوا اور ہمارے مفسرین جو اصولی بھی تھے اسی کے ضمن میں اس آیت پر کلام کر رہے تھے۔ اس لیے علامہ ابن عاشور کی عبارت کے تجزیے سے پہلے اس آیت کے تحت ہونے والے اس اختلاف کو ایک لازمی مقدمے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…